021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دکان کی فروخت میں اضافی شرط لگانے کا حکم
71796خرید و فروخت کے احکامبیع فاسد ، باطل ، موقوف اور مکروہ کا بیان

سوال

حامد نے پلازہ کے مالک سے ایک شاپ خریدنی ہے۔ مالک کہتا ہے کہ آپ شاپ مجھ سے خریدیں، میں شاپ کو خود رینٹ پر چڑھا کر تین سال کے کرایے کا کانٹریکٹ کر کے آپ کو متعین رقم کی مد میں چھ ماہ کا ایڈوانس کرایے کا چیک دے دیا کروں گا۔ اگر شاپ خالی بھی ہوگی تو بھی آپ کو متعین رقم کرایے کی ملا کرے گی۔ کیا یہ معاملہ درست ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر خریدار پلازہ کے مالک سے اُس کی بیان کردہ شرط پر دکان خریدتا ہے تو اِس صورت میں یہ بیع فاسد ہوگی اور اسے ختم کرنا دونوں پر  واجب ہوگا۔ البتہ اگر بغیر شرط لگائے حامد دکان خریدتا ہے اور پھر خریدنے کے بعد پلازے کے مالک کو اجارہ کے اصول کے مطابق کرایے پر دے دیتا ہے تو یہ جائز ہے۔

حوالہ جات
قال العلامۃ الحصکفي رحمہ اللہ تعالی: (و) لا (بيع بشرط) عطف على إلى النيروز، يعني الأصل الجامع في فساد العقد بسبب شرط (لا يقتضيه العقد، ولا يلائمه وفيه نفع لأحدهما أو) فيه نفع (لمبيع) هو (من أهل الاستحقاق) للنفع، بأن يكون آدميا.(الدر المختار مع رد المحتار: 5/84)
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی: تنبيه: في جامع الفصولين أيضا: لو شرطا شرطا فاسدا قبل العقد، ثم عقدا لم يبطل العقد. اهـ. قلت: وينبغي الفساد لو اتفقا على بناء العقد علیہ، كما صرحوا به في بيع الهزل. (رد المحتار: 5/84)

صفی ارشد

دارالافتاء، جامعۃ الرشید، کراچی

28/جمادی الثانیہ/1442

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

صفی ارشد ولد ارشد ممتاز فاروقی

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب