021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مسجد کے نام سے وقف زمین پر مدرسہ کی تعمیر
71642وقف کے مسائلوقف کے متفرّق مسائل

سوال

ماتلی شہر میں ایک پلاٹ جو کہ مسجد کے لیے وقف تھا، لیکن مدرسہ کی ضرورت کی بنا پر کچھ حصہ پر مدرسہ کی تعمیر کی ، پھر بعد میں مسجد کی تعمیر ہوئی، کیا یہ اقدام درست ہے؟

] سائل کے زبانی بیان کے مطابق حیدر آباد کے چند بلڈرز نے ماتلی شہر میں کچھ زمین خریدی تھی، اس پر ایک مشترکہ سوسائٹی کی تعمیر کی تھی، مالکان نے اسی سوسائٹی میں ایک پلاٹ مسجد کے لیے بھی وقف کیا تھا، سوسائٹی مالکان سارے پلاٹس بیچ کر چلے گئے ہیں۔ اس کے بعد وہاں کے رہنے والے افراد اور سوسائٹی کے امام صاحب نے وہاں کی دینی ضروریات کو دیکھتے ہوئے مشورے سے اس پلاٹ کے زیادہ حصے پر مسجد اور کچھ حصے پر مدرسہ کی تعمیر کی۔ [

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اس طرح کی سوسائٹیوں میں عموماً سکول، پارک اور مسجد ومدرسہ کے لیے کچھ پلاٹس مختص کر لیے جاتے ہیں۔ مسجد کے لیے پلاٹ کے وقف سے سب دینی ضروریات  جیسے مسجد، فناء مسجد، مدرسہ اور امام صاحب کی رہائش وغیرہ مراد ہوتی ہیں۔

صورت مسئولہ میں مسجد کے لیے وقف کردہ زمین پر تعمیر شدہ مدرسہ بھی مسجد کی ملکیت ہے، اس میں تعلیم قرآن وعلوم دین جائز ہے، الگ سے کوئی چیز نہیں ہے۔ اگر آئندہ مسجد کو توسیع کی ضرورت پڑی یا مسجد کی ضروریات کے لیے کسی اور تعمیر کی حاجت ہوئی تو مدرسہ کی زمین استعمال کی جاسکتی ہے۔

لہذا علاقے کی ضروریات اور ذکر کردہ مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے مذکورہ پلاٹ پر مسجد کے ساتھ کچھ حصے پر مدرسہ کی تعمیر درست ہے۔

حوالہ جات
المبسوط للسرخسي (12/ 34)
قال (وإن جعل أرضا له مسجدا لعامة المسلمين وبناها وأذن للناس بالصلاة فيها وأبانها من ملكه فأذن فيه المؤذن وصلى الناس جماعة صلاة واحدة، أو أكثر لم يكن له أن يرجع فيه، وإن مات لم يكن ميراثا)
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 445)
وفي الأشباه في قاعدة العادة محكمة، أن ألفاظ الواقفين تبنى على عرفهم كما في وقف فتح القدير، ومثله في فتاوى ابن حجر، ونقل التصريح بذلك عن جماعة من أهل مذهبه وفي جامع الفصولين مطلق الكلام فيما بين الناس ينصرف إلى المتعارف، وقدمنا نحوه عن العلامة قاسم وقد مر وجوب العمل بشرط الواقف، فحيث شرط القسمة كذلك وكان عرفه بهذا اللفظ المفاضلة وجب العمل بما أراده، ولا يجوز صرف اللفظ عن مدلوله العرفي لأنه صار حقيقة عرفية في هذا المعنى والألفاظ تحمل على معانيها الحقيقية اللغوية إن لم يعارضها نقل في العرف الخ
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 460)
مطلب إذا كان للفظ محتملان تعين أحدهما بغرض الواقف الخ

ناصر خان مندوخیل

دارالافتاء جامعۃالرشید کراچی

30/06/1442 ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

ناصر خان بن نذیر خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب