71722 | اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائل | کرایہ داری کے جدید مسائل |
سوال
ہم نے لندن کی ایک کمپنی میں انویسٹمنٹ کی ہوئی ہے۔ یہ کمپنی کرپٹو کرنسی کی ٹریڈنگ کرتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ کمپنی گولڈ، سلور اور بہت ساری دیگر کرنسیوں میں ٹریڈنگ کر کے اپنے انویسٹرز کو پرسنٹیج کے حساب سے 24 گھنٹے بعد منافع کے ساتھ ساتھ اپنی رقم بھی واپس کر دیتی ہے۔ بقول اس کمپنی کے ہمارے پاس ماہرین کی ٹیم ہے اور بہت ساری کمپنیوں میں انویسٹمنٹ کی گئی ہے لہذا نقصان کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔
مذکورہ سسٹم کے مطابق یہ منافع جائز ہے یا نہیں؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
کرنسی اور سونے کی خرید و فروخت کے لیے ضروری ہے کہ اس میں تین شرائط پائی جائیں:
1. اس کی لین دین حقیقی ہو، فقط اکاؤنٹ میں ظاہر نہ کی جاتی ہو۔
2. اسے بیچنے والا اس کا حقیقتاً مالک بھی ہو اور بیچنے والے نے اس پر قبضہ بھی کیا ہو۔
3. لین دین کی مجلس میں ہی کسی ایک کرنسی پر حقیقتاً یا حکماً قبضہ کر لیا جائے۔
اسی طرح تیل کی خرید و فروخت کے لیے بھی دو شرائط کا پایا جانا لازمی ہے:
1. اس کی لین دین حقیقی ہو، فقط اکاؤنٹ میں ظاہر نہ کیا جاتا ہو۔
2. اسے بیچنے والا اس کا حقیقتاً مالک بھی ہو اور بیچنے والے نے اس پر قبضہ بھی کیا ہو۔
سوال میں مذکور کمپنی آن لائن فاریکس کا کام کرتی ہے اور آن لائن فاریکس ایکسچینج کے مروجہ ماڈل میں نہ تو حقیقتاً لین دین ہوتی ہے اور نہ ہی قبضہ ہوتا ہے۔ لہذا ایسی کمپنیوں میں انویسٹمنٹ کرنا اور ان سے منافع حاصل کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔ ۔ البتہ اگر کسی کمپنی کے طریقہ کار کی نگرانی مستند علماء کرام کر رہے ہوں اور انہوں نے تحریراً اس بات کی گواہی دی ہو کہ اس کا طریقہ کار شرعاً درست ہے تو اس پر کام کرنا جائز ہوگا۔ البتہ کرپٹو کرنسی کے جائز یا ناجائز ہونے کا فتوی فی الحال دار الافتاء سے جاری نہیں ہو رہا۔
حوالہ جات
۔۔
محمد اویس پراچہ
دار الافتاء، جامعۃ الرشید
30/ جمادی الثانیۃ 1442ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد اویس پراچہ | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |