021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کھوٹ والے زیورات کی خالص سونے سے بیع کا حکم
71721خرید و فروخت کے احکامبیع صرف سونے چاندی اور کرنسی نوٹوں کی خریدوفروخت کا بیان

سوال

میرے ایک دوست ہیں جو زیورات بنا کر مہاجنوں (سناروں) کو دیتے ہیں۔ وہ اتنے زیورات کے بدلے ان کو خالص سونا دیتے ہیں، اس میں کچھ پرسنٹ کاریگر کا ہوتا ہے اور کچھ زیورات کے مالک کا۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ مثلاً زیور اگر 75 فیصد کا بنا ہوا ہے (یعنی خالص سونا اس میں 75 فیصد ہے اور بقیہ چاندی یا دوسری دھات، جیسا کہ عام طور پر یہ طریقہ ہے کہ سونے کے ساتھ دوسری دھات ملا کر بناتے ہیں)تو  سنار 82 فیصد پر حساب کرتے ہیں (یعنی 7 فیصد بڑھا کر) جس میں 5 فیصد تو کاریگر کا ہوتا ہے اور 2 فیصد مالک زیورات کا۔ کیا اس طرح معاملہ کرنا جائز ہے؟ اور کاریگر کو زیور بنانے کی اجرت میں 5 فیصد سونا دینا اور خود 2 فیصد رکھنا درست ہے؟ تفصیلی جواب عنایت فرمائیں تو مہربانی ہوگی۔ بسا اوقات سنار زیورات کے بدلے سونا دینے کی بجائے اختیار دیتے ہیں کہ چاہو تو سونا لے لو یا چاہو تو اس کی قیمت لے لو۔ ان میں سے کون سی صورت درست ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شریعت مطہرہ کا اصول یہ ہے کہ خالص سونے کے بدلے اگر کھوٹے سونے کی بیع کی جائے  اور کھوٹے سونے میں کھوٹ مغلوب اور سونا غالب ہو تو دونوں میں آپس میں برابری ضروری ہے۔ اس اصول کی روشنی میں سوال میں مذکور صورت میں چونکہ زیورات میں کھوٹ مغلوب اور سونا غالب ہے لہذا اس کے بدلے دیا جانے والا سونا بھی اسی کے بقدر ہونا ضروری ہے اور سوال میں مذکور 7 فیصد اضافی سونا دینے کی صورت شرعاً جائز نہیں ہے۔ البتہ اگر سونے کے بجائے کرنسی دی جائے تو اس میں عاقدین زیورات کی جس قیمت پر متفق ہو جائیں وہ دی جا سکتی ہے۔

حوالہ جات
قال الحصكفيؒ: "(وما غلب فضته وذهبه فضة وذهب) حكما (فلا يصح بيع الخالص به، ولا بيع بعضه ببعض إلا متساويا وزنا و) كذا (لا يصح الاستقراض بها إلا وزنا) كما مر في بابه."
علق عليه ابن عابدينؒ: "(قوله: حكما) تمييز محول عن المبتدإ: أي حكم ما غلب فضته وذهبه حكم الفضة والذهب الخالصين، وذلك لأن النقود لا تخلو عن قليل غش للانطباع وقد يكون خلقيا كما في الرديء فيعتبر القليل بالرديء فيكون كالمستهلك ط."
(الدر المختار و حاشية ابن عابدين، 5/266، ط: دار الفكر)

محمد اویس پراچہ     

دار الافتاء، جامعۃ الرشید

30/ جمادی الثانیۃ 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اویس پراچہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب