021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
والد کی موجودگی میں بھائی کا نکاح کا وکیل بننا
71856نکاح کا بیاننکاح کی وکالت کابیان

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیانِ عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر ایک عاقلہ بالغہ مطلقہ عورت اپنے بھائی کو اپنا ولی بناکرمہر مقرر کرکے،گواہوں کی موجودگی میں کسی کے ساتھ نکاح کرتی ہےتو اس نکاح کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیانکاح منعقد ہو جائے گا؟ جبکہ والد صاحب بھی حیات ہوں،لیکن نکاح کی اجازت نہ دیتے ہوں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

بہتر یہی ہے کہ والدین کی رضامندی اور مشاورت سے نکاح کیاجائےاور والدین کو بھی چاہیے کہ وہ اس معاملے میں اولاد کی بہتری اور ان کی  رضامندی کا خیال رکھیں۔بے جا اصرار کے بجائے دانشمندی سے معاملہ حل کرنا چاہیے۔

 اگرعاقلہ بالغہ مطلقہ عورت والد کی اجازت کے بغیر  اپنے بھائی کو اپنے نکاح کا وکیل بنائےاور اس کا بھائی اس کا  نکاح کروادے تو ایسا نکاح شرعاً  منعقد ہو جائے گا اور والد کو نکاح فسخ کروانے کا اختیار نہ ہوگا،البتہ بھائی نے اگرکسی ایسے لڑکے سے نکاح کروایا جو نسب،مال داری،دین داری  اورپیشے کے اعتبار سے لڑکی سے کم تر ہو تو اس صورت میں نکاح سرے سے منعقد ہی نہیں ہو گا۔

نسب سے مراد یہ ہے  لڑکی سید زادی یا صدیقی،فاروقی،عثمانی اور علوی وغیرہ خاندان کی ہو اور لڑکا ان خاندانوں سے نہ ہو۔مال داری  سے مراد یہ ہے کہ لڑکا لڑکی کو مہر اور نفقہ  دینے کی استطاعت رکھتا ہو۔دین داری سے مراد یہ ہے لڑکی نیک،صالح و پارسا ہو ، جبکہ لڑکا شرابی،بدکار اور فاسق ہو تو دونوں میں کفاءت نہیں۔ پیشہ سے مراد  وہ ہے جو خاندانی طور پر چلا آرہا ہو کہ اس پیشے کے اثرات انسان کے اخلاق و عادات اور طور طریقے پر پڑتے  ہوں اور معاشرہ میں لڑکے کا پیشہ لڑکی کے گھر والوں کے پیشے سے کمتر اور گھٹیا سمجھا جاتا ہو تو ایسی صورت میں بھی کفاءت میں برابری نہیں ہوگی۔

یاد رہے کہ یہ تمام تفصیل اس صورت میں ہے جب لڑکی، ولی(والدیا دادا وغیرہ) کی اجازت اور

رضامندی کے بغیر نکاح کرے تو کفؤ کو دیکھا جاتا ہے،لیکن اگر لڑکی اور ولی ایسے رشتہ پر راضی ہوں جو ان کے ہم پلہ نہ ہوں تو بغیر کفؤ اور مماثلت کے بھی نکاح جائز ہے۔

حوالہ جات
قال العلامۃ علاؤالدین الکاسانی رحمہ اللہ :وأما ولاية الندب والاستحباب، فهي الولاية على الحرة البالغة العاقلة ،بكرا كانت أو ثيبا في قول أبي حنيفة وزفر وقول أبي يوسف الأول وروي عن محمد أنه رجع إلى قول أبي حنيفة .   
(بدائع الصنائع:2/247)
قال العلامۃ ابن الہمام رحمہ اللہ :الولاية في النكاح نوعان: ولاية ندب واستحباب، وهو الولاية على البالغة العاقلة، بكرا كانت أو ثيبا، وولاية إجبار، وهو الولاية على الصغيرة بكرا كانت أو ثيبا...قوله :(ولا يجوز للولي إجبار البكر البالغة على النكاح)
معنى الإجبار أن يباشر العقد، فينفذ عليها، شاءت أو أبت.
( فتح القدیر :3/255260)
قال العلامۃ حصکفی رحمہ اللہ: الولي (شرط) صحة (نكاح صغير ومجنون ورقيق) لا مكلفة (فنفذ نكاح حرة مكلفة بلا) رضا  ولي)…. وله) أي للولي (إذا كان عصبة، الاعتراض في غير الكفء)لو استووا في الدرجة،وإلا فللأقرب) منهم حق الفسخ.
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ :قوله:) وإلا إلخ): أي وإن لم يستووا في الدرجة، وقد رضي الأبعد، فللأقرب الاعتراض.(الدرالمختارمع رد المحتار:4/149153)
قال العلامۃالشیخ نظام الدین رحمہ اللہ : الكفاءة معتبرة في الرجال للنساء للزوم النكاح، كذا في محيط السرخسي.ولا تعتبر في جانب النساء للرجال، كذا في البدائع. فإذا تزوجت المرأة رجلا خيرا منها؛ فليس للولي أن يفرق بينهما. (الفتاوی الھندیۃ:1/290)
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ: أما في العجم فتعتبر (حرية ،وإسلاما… (و تعتبر في العرب والعجم (ديانة (أي تقوى ...و(مالا) بأن يقدر على المعجل(وحرفة) فمثل حائك غير كفء لمثل خياط.
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ :قوله:( الكفاءة معتبرة): قالوا: معناه معتبرة في اللزوم على الأولياء ،حتى أن عند عدمها جاز للولي الفسخ.  وهذا بناء على ظاهر الرواية من أن العقد صحيح، وللولي الاعتراض، أما على رواية الحسن المختارة للفتوى من أنه لا يصح .  
قوله:( وأما في العجم): المراد بهم من لم ينتسب إلى إحدى قبائل العرب، ويسمون الموالي والعتقاء كما مر، وعامة أهل الأمصار والقرى في زماننا منهم، سواء تكلموا بالعربية أو غيرها، إلا من كان له منهم نسب معروف كالمنتسبين إلى أحد الخلفاء الأربعة أو إلى الأنصار ونحوهم .
قوله:( فتعتبر حرية وإسلاما): أفاد أن الإسلام لا يكون معتبرا في حق العرب كما اتفق عليه أبو حنيفة وصاحباه. قوله:( ديانة): أي عندهما وهو الصحيح ،وقال محمد لا تعتبر إلا إذا كان يصفع ويسخر منه، أو يخرج إلى الأسواق سكران، ويلعب به الصبيان؛لأنه مستخف به. هداية.ونقل في الفتح عن المحيط: أن الفتوى على قول محمد ،لكن الذي في التتارخانية عن المحيط:قیل:وعليه الفتوى،وكذا المقدسي عن المحيط البرهاني ،ومثله في الذخيرة، قال في البحر: وهو موافق لما صححه في المبسوط، وتصحيح الهداية معارض له ،فالإفتاء بما في المتون أولى.
قوله:(ومالا)(بأن يقدر على المعجل إلخ):أي على ما تعارفوا تعجيله من المهر، وإن كان كله حالا، فلا تشترط القدرة على الكل، ولا أن يساويها في الغنى في ظاهر الرواية، وهو الصحيح. زيلعي.
قوله:( فمثل حائك إلخ): قال في الملتقى وشرحه: فحائك أو حجام أو كناس وفيه إشارة إلى أن الحرف جنسان، ليس أحدهما كفؤا للآخر، لكن أفراد كل منها كفء لجنسها، وبه يفتي.(الدرالمختارمع رد المحتار:3/8490)
قال العلامۃ ابن نجیم رحمہ اللہ تعالی: وأن المفتى به رواية الحسن عن الإمام من عدم الانعقاد أصلا، إذا كان لهاولي، لم يرض به قبل العقد.(البحر الرائق :3/138)

عرفان حنیف

دارالافتاء،جامعۃالرشید،کراچی

  یکم رجب /1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عرفان حنیف بن محمد حنیف

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب