021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
درجات بلند ہونے کا معیار
71833علم کا بیانعلم اور علماء کی تعظیم کا بیان

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اِس مسئلے کے بارے میں کہ کسی تبلیغی بزرگ غیر عالم کا درجہ زیادہ ہوگا یا کسی مدرسے میں پڑھے ہوئے عالم کا درجہ زیادہ ہوگا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

قرآن و سنت میں علم کی بہت زیادہ فضیلت آئی ہے، اِسی وجہ سے ایک عالم باعمل کا فقط عابد سے بلند درجہ قرار دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ اخروی نجات کا مدار تقوی پر ہے، "إن أکرمکم عند اللہ أتقاکم" کہ جو سب سے زیادہ متقی پرہیزگار ہوگا، اُس کا درجہ اللہ کے ہاں بلند ہے۔ لہذا بے عمل عالم سے بسا اوقات باعمل غیر عالم بڑھ سکتا ہے۔ یہ تو اصولی جواب ہوگیا، لیکن عوام کو اِس طرح کے تقابل میں پڑنے کے بجائے اپنے علم و عمل پر توجہ رکھنی چاہیے اور سب علماء و بزرگوں کا دل سے احترام کرنا چاہیے۔

حوالہ جات
قال العلامۃ الألوسي رحمہ اللہ تعالی: "والذين أوتوا العلم" أي الشرعي، "درجات" أي كثيرة جليلة، كما يشعر به المقام، وعطف- الذين أوتوا العلم- على الذين آمنوا من عطف الخاص على العام تعظيما لهم بعدهم كأنهم جنس آخر، ولذا أعيد الموصول في النظم الكريم.(روح المعاني: 14/223)
قال العلامۃ ابن عبد البر رحمہ اللہ تعالی عن عبد الله بن عمرو بن العاص، عن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم أنه قال: قليل العلم خير من كثير العبادة.(جامع بیان العلم و فضلہ: 1/99)
وقال أیضا عن أبي هريرة، أنه قال: لأن أجلس ساعة، فأفقه في ديني أحب إلي من أن أحيي ليلة إلى الصباح. (جامع بیان العلم وفضلہ: 1/118)

صفی ارشد

دارالافتاء، جامعۃ الرشید، کراچی

2/رجب/1442

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

صفی ارشد ولد ارشد ممتاز فاروقی

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب