021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مضارب اوررب المال کےمل کر مال بیچنےکی شرط
71802مضاربت کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

مفتی صاحب سوال کے ساتھ منسلکہ معاہدہ کے متعلق فتوی چاہیے۔ایک فریق (محمداویس )نےمعاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔معاہدہ نامہ میں لکھا ہےکہ دونوں فریق مل کرچوزے فروخت کریں گےجبکہ محمداویس نے ازخود ریٹ طے کیا اورخود ہی چوزےفروخت کیے،نیز چوزے لینے بھی اویس اکیلا ہی گیا تھا۔الغرض محمد اویس  نے تقریبا کسی معاملے میں بھی دوسرے فریق (محمد زبیر) کو ساتھ نہیں لیا بلکہ اپنی مرضی سے معاملات طےکیے۔اس کاروبار میں/68000 کا نقصان ہواہے۔

 اب پوچھنا یہ ہےکہ اس معاہدے کے رو سے نقصان دونوں فریق برداشت کریں گے یا ایک؟ اگر محمد اویس نے کسی بھی قسم  کی ہیرا پھیری یا غفلت کی ہے تو اسلام میں اس کی کیا سزا ہے؟ یہ بات فتویٰ میں ضرور لکھیں تاکہ اگر ایسی کوئی بات ہو تو شاید اس کو پڑھ کر اویس توبہ کرلے۔

تنقیح:مستفتی نے فون پر بتلایا بیچتے وقت محمد اویس نےفون کیا اور ریٹ بتلایا اور محمد زبیر نے آنے کا کہامگرجا نہ سکا تو محمد اویس نےازخود چوزے بیچ دیے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال کے ساتھ منسلک معاہدےکی تحریر دیکھنے سے معلوم ہوا محمد اویس اور محمد زبیر نے عقد مضاربت کیا ، جس میں یہ شرط ہےکہ دونوں فریق مل کرمال بیچیں گے۔مضاربت کےشرعی اصولوں کی رو سےرب المال (انویسٹر) کے کام کرنے کی شرط لگانے سے مضاربت کا معاہدہ فاسد ہوجاتا ہے،اس لیےیہ تمام کاروبار محمد زبیر کا شمار ہوگا اور محمد اویس اس جیسے کام پر عام طور پر ملنے والی مزدوری کا حق دار ہے۔

محمد اویس پر وکیل ہونے کی حیثیت سے بھی نقصان کا تاوان نہیں ہے کیونکہ اس نے فون کرکے محمد زبیر کو بتلایاتھا کہ چوزے اتنے کے بک رہے ہیں اورمحمد زبیر نے منع نہیں کیا بلکہ آنے کا کہا اور نہ جا سکا،اس کے بعدمحمداویس نے سودا کردیا،لہذاجو نقصان ہواہےوہ محمد زبیر(انویسٹر) کا ہی شمارہوگا۔

حوالہ جات
الأصل للامام محمد بن الحسن الشیبانی(4/294)،ط:قطر
وإذا دفع الرجل إلى الرجل مالا مضاربة، على أن يعمل به رب المال، على أن لرب المال أجر عشرة دراهم كل شهر ما عمل مع المضارب، فاشترى بمال المضاربة، فربحا أو وضعا، فإن الربح كله لرب المال، والوضيعة على المال، وللمضارب أجر مثله فيما عمل في المال، ولا أجر لرب المال، لأن رب المال حين اشترط أن يعمل مع المضارب فلم يُخَلِّ بين المضارب وبين العمل فصارت المضاربة فاسدة، وصار للمضارب أجر مثله. وعلى هذا جميع هذا الوجه وقياسه.

 سیف اللہ تونسوی

 دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

  2/رجب1442ھ 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سیف اللہ تونسوی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب