71816 | طلاق کے احکام | طلاق کے متفرق مسائل |
سوال
میرے ذہن میں طلاق دینے کے وساوس اور خیالات آتے ہیں لیکن میں کبھی ان الفاظ کو زبان پر نہیں لاتا جو میرے ذہن میں آتے ہیں لیکن میرے لیے یہ فرق کرنا مشکل ہوتا ہے کہ آیا یہ خیالات میں خود اپنے اختیار سے ذہن میں لاتا ہوں یا غیر اختیاری طور پر میرے ذہن میں آتے ہیں لیکن مجھے یہ وسوسہ ضرور ہوتا ہے کہ شاید یہ خیالات میں اپنے ذہن میں خود لاتا ہوں لیکن الفاظ کو کبھی اپنی زبان پر نہیں لاتا تو کیا اس صورت میں بھی نکاح پر کوئی منفی اثر پڑتا ہے یا نہیں ؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
طلاق کے واقع ہونے کے لیے ضروری ہے کہ طلاق کے صریح یا کنایہ الفاظ زبان سے ادا کیے جائیں یا پھر لکھ کر دیے جائیں ۔الفاظ طلاق چاہے اختیار سے ذہن میں لائے جائیں یا غیر اختیاری طور پر ذہن میں آ جائیں ، اس سے نکاح پر کوئی منفی اثر نہیں پڑتا ۔
حوالہ جات
الموسوعۃ الفقھیہ الکویتیۃ-(43-148)
وَلَوْ حَدَّثَ نَفْسَهُ أَنَّهُ يُطَلِّقُ زَوْجَتَهُ ، أَوْ يُنْذِرُ لِلَّهِ تَعَالَى شَيْئًا ، وَلَمْ يَنْطِقْ بِذَلِكَ ، لَمْ يَقَعْ طَلاقُهُ ، وَلَمْ يَصِحَّ نَذْرُهُ (2) ؛ لِقَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ اللَّهَ تَجَاوَزَ لأُمَّتِي عَمَّا وَسْوَسَتْ - أَوْ حَدَّثَتْ - بِهِ أَنْفُسَهَا مَا لَمْ تَعْمَلْ بِهِ أَوْ تَكَلَّمْ " (3) .
وَقَالَ قَتَادَةُ بَعْدَ أَنْ رَوَى الْحَدِيثَ : إِذَا طَلَّقَ فِي نَفْسِهِ فَلَيْسَ بِشَيْءٍ .
وَقَالَ عُقْبَةُ بْنُ عَامِرٍ : لا يَجُوزُ طَلاقُ الْمُوَسْوَسِ .
وَعَلَّقَ ابْنُ حَجَرٍ عَلَى هَذَا الْقَوْلِ شَارِحًا لَهُ : أَيْ لا يَقَعُ طَلاقُهُ ؛ لأَنَّ الْوَسْوَسَةَ حَدِيثُ النَّفْسِ ، وَلا مُؤَاخَذَةَ بِمَا يَقَعُ فِي النَّفْسِ (4)
عبدالدیان اعوان
دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی
3 رجب 1442
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبدالدیان اعوان بن عبد الرزاق | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |