021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کنایہ الفاظ استعمال کرنے کی صورت میں عدم طلاق کی نیت کا غالب گمان ہونا
71817طلاق کے احکامالفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان

سوال

 ایک دفعہ میں نے غصے میں اپنے گھر والوں سے اپنی بیوی کے بارے میں کہا کہ " اسے میکے لے جاؤ اور پھر واپس نہ لائیں ۔ مجھے نہیں چاہیے " میرے الفاظ میں طلاق کے دو ٹوک قسم کے الفاظ شامل نہیں تھے ۔ مجھے جب غصہ آتا ہے تو غصے میں کہی ہوئی اکثر باتیں مجھے یاد بھی نہیں رہتی ہیں ۔ یہ الفاظ کہتے وقت مجھے یاد نہیں ہے کہ میری نیت کیا تھی ۔ غالب گمان یہ ہے کہ میری نیت طلاق دینا نہیں تھی لیکن اب میرے ذہن میں یہ وسوسہ بار بار گردش کرتا ہے کہ آیا میرا غالب گمان یہ ہے بھی کہ نہیں ۔ اس مسئلے میں ، میں بہت زیادہ کشمکش کا شکار ہوں اور میرا ذہن کسی ایک بات یا کسی ایک نکتے پر نہیں ٹکتا ۔ اس مسئلے کی وجہ سے میں انتہائی پریشان ہوں تو کیا اس صورت میں بھی میرے نکاح پر کوئی منفی اثر پڑا ہے یا نہیں ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں جب آپ نے یہ الفاظ استعمال کیے ، اس وقت اگر آپ دونوں میاں بیوی کے درمیان طلاق دینے کا ذکر نہیں ہو رہا تھا  اور آپ کا غالب گمان یہ ہے کہ ان الفاظ کے استعمال کے وقت آپ کی نیت طلاق کی نہیں تھی تو اس صورت میں طلاق واقع نہیں ہوئی ۔ ذہن میں پیدا ہونے والے وساوس کی طرف توجہ نہ دیا کریں۔

حوالہ جات
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (3/ 105)
وقوله الحقي بأهلك يحتمل الطلاق لأن المرأة تلحق بأهلها صارت مطلقة، ويحتمل الطرد والإبعاد عن نفسه مع بقاء النكاح وإذا احتملت هذه الألفاظ الطلاق وغير الطلاق فقد استتر المراد منها عند السامع، فافتقرت إلى النية لتعيين المراد

عبدالدیان اعوان

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی 

3 رجب 1442

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبدالدیان اعوان بن عبد الرزاق

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب