71817 | طلاق کے احکام | الفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان |
سوال
ایک دفعہ میں نے غصے میں اپنے گھر والوں سے اپنی بیوی کے بارے میں کہا کہ " اسے میکے لے جاؤ اور پھر واپس نہ لائیں ۔ مجھے نہیں چاہیے " میرے الفاظ میں طلاق کے دو ٹوک قسم کے الفاظ شامل نہیں تھے ۔ مجھے جب غصہ آتا ہے تو غصے میں کہی ہوئی اکثر باتیں مجھے یاد بھی نہیں رہتی ہیں ۔ یہ الفاظ کہتے وقت مجھے یاد نہیں ہے کہ میری نیت کیا تھی ۔ غالب گمان یہ ہے کہ میری نیت طلاق دینا نہیں تھی لیکن اب میرے ذہن میں یہ وسوسہ بار بار گردش کرتا ہے کہ آیا میرا غالب گمان یہ ہے بھی کہ نہیں ۔ اس مسئلے میں ، میں بہت زیادہ کشمکش کا شکار ہوں اور میرا ذہن کسی ایک بات یا کسی ایک نکتے پر نہیں ٹکتا ۔ اس مسئلے کی وجہ سے میں انتہائی پریشان ہوں تو کیا اس صورت میں بھی میرے نکاح پر کوئی منفی اثر پڑا ہے یا نہیں ؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورت مسئولہ میں جب آپ نے یہ الفاظ استعمال کیے ، اس وقت اگر آپ دونوں میاں بیوی کے درمیان طلاق دینے کا ذکر نہیں ہو رہا تھا اور آپ کا غالب گمان یہ ہے کہ ان الفاظ کے استعمال کے وقت آپ کی نیت طلاق کی نہیں تھی تو اس صورت میں طلاق واقع نہیں ہوئی ۔ ذہن میں پیدا ہونے والے وساوس کی طرف توجہ نہ دیا کریں۔
حوالہ جات
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (3/ 105)
وقوله الحقي بأهلك يحتمل الطلاق لأن المرأة تلحق بأهلها صارت مطلقة، ويحتمل الطرد والإبعاد عن نفسه مع بقاء النكاح وإذا احتملت هذه الألفاظ الطلاق وغير الطلاق فقد استتر المراد منها عند السامع، فافتقرت إلى النية لتعيين المراد
عبدالدیان اعوان
دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی
3 رجب 1442
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبدالدیان اعوان بن عبد الرزاق | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |