021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مضارب کا مالِ مضاربت میں اپنا مال ملانا
71883مضاربت کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

محترم مفتی صاحب اس بارے میں رہنمائی فرمایئے کہ مولانا عبداللہ نے مولانا سعد اللہ کو دو لاکھ روپے میں جنرل سٹور کا سامان خرید کر مضاربت پر دیا۔  اور معاہدے میں یہ طے پایا کہ ایک سال بعد  جو منافع ہوگا وہ آدھا آدھا کرکے آپس میں تقسیم کر یں گے۔  چنانچہ سال کے اختتام پر چھ لاکھ روپے منافع ہوا۔ اب معاہدے کے مطابق مولانا عبداللہ (رب المال) کی کل رقم رأس المال اور تین لاکھ منافع کو ملا کر پانچ لاکھ ہوگئی۔ اور مولانا سعد اللہ (مضارب)کو تین لاکھ ملے۔  ان تین لاکھ میں سے انہوں نے دوران سال ایک لاکھ روپے خرچ کیے،  اور اس کی ان کو اجازت تھی۔ لیکن منافع کو جدا نہ کرنے کی وجہ سے دوسرے سال ان کے بقیہ دو لاکھ مولاناعبداللہ کے پانچ لاکھ کے ساتھ دکان میں لگ گئے۔  چنانچہ دوسرے سال کی ابتداء میں میں کل مالیت سات لاکھ تھی۔ اختتام سال پر جب حساب کیا تو ان سات لاکھ نے مزید چھ لاکھ روپے کمائے۔چنانچہ کل مال تیرہ لاکھ ہوا ۔

            اب سوال یہ ہے کہ کہ دوسرے سال جو چھ لاکھ روپے سات لاکھ کی مشترکہ مالیت پر کمائے گئے، اس منافع  کو کیسے تقسیم کیا جائے گا ؟

            تنقیح پر معلوم ہوا کہ رب المال نے جنرل اسٹور کا سامان خرید کر مضارب کو دیا۔ اوررب المال (مولانا عبداللہ) کو اس بات کا علم تھا کہ ان کا رأس المال اور منافع (دولاکھ + تین لاکھ)مضارب (مولانا سعد اللہ) کے مال کے ساتھ مخلوط ہو چکا ہے۔ مضارب کے بیان کے مطابق مضارب کارب المال کا شریک بننے پر رب المال کی طرف سے کسی قسم کی کوئی نکیرنہیں ہوئی، اور رب المال کی طرف سے مال خلط کرنے کی دلالۃً اجازت تھی۔ نیز دوسرے سال منافع کی تقسیم کے لیے نئی شرح مقرر نہیں کی گئی، بلکہ سابقہ شرح کو برقرار رکھا گیا، یعنی جو منافع ہو گا اسے آدھا آدھا تقسیم کیا جائے گا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکردہ چند امور قابلِ غور ہیں:

  1. مذکورہ صورت مضاربت بالعروض (سامان) کی ہے۔ حنفیہ کے نزدیک مضاربت بالعروض جائز نہیں، الا یہ

کہ مالِ مضاربت کو بیچ کر نقد میں تبدیل کر لیا جائے۔ البتہ امام احمد رحمہ اللہ کی ایک روایت کے مطابق مضاربت بالعروض جائز ہے۔ حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے امداد الفتاوی میں بوقتِ ضرورت اس قول کو اختیار کرنے کی گنجائش دی ہے اوران کی اتباع میں  مفتی تقی عثمانی حفظہ اللہ نے فتاوی عثمانی میں اس گنجائش کو اختیار کیا ہے۔

ان فتاوی کو مد نظر رکھتے ہوئے مضاربت کی مذکورہ صورت کے جواز کی گنجائش ملتی ہے۔ لہذا بوقتِ عقدجنرل اسٹور کا سامان جس کی مالیت دو لاکھ تھی، مالِ مضاربت شمار ہو گا۔

  1. مضارب میں جب دو حیثیتیں ہوں، ایک حیثیت مضارب ہونے کی، اور دوسری شریک ہونے کی، تو ایسی صورت میں مضارب ان دونوں حیثیتوں سے نفع میں شریک ہوگا۔ مضارب ہونے کی حیثیت میں  نفع کی کوئی بھی شرح باہمی رضامندی سے طے کی جا سکتی ہے، البتہ شریک ہونےکی حیثیت سے مضارب کا حصہ اس کے لگائے ہوئے سرمائے کے تناسب سے کم مقرر نہیں کیا جا سکتا۔
  2. مضارب کا اپنا مال رب المال کے مال میں ملانے کے لیے  رب المال کے طرف سےاجازت کا  ہونا ضروری ہے۔

            عروض میں مضاربت کے جواز اور رب المال کی مضارب کو اپنا مال ملانے کی اجازت کو مدِ نظر رکھتے ہوئےیہ مضاربت جو جائز تھی۔ لہذا مالِ مضاربت کو طے شدہ شرح کے مطابق آدھا آدھا تقسیم کیا جائے گا اور مضارب نے جو دو لاکھ روپےرب المال کے مال میں ملائے، ان کا منافع صرف اسی کو ملے گا۔ اب نفع کی تقسیم حسب ذیل ہو گی:

            دوسرے سال ہونے والے چھ لاکھ نفع کے سات حصے کیے جائیں گے۔ ہر حصہ 85,714 کے برابر ہو گا ، اصل سرمائے(سات لاکھ) کے ہر ایک لاکھ کے مقابلے میں ہو گا۔اب سات لاکھ میں دو لاکھ  مضارب کے ہیں، لہذا ان دولاکھ کے مقابلے میں نفع کے دوحصے صرف مضارب کے ہوں گے۔ اور منافع کے بقیہ پانچ حصے مالِ مضاربت کے پانچ لاکھ کے مقابلے میں ہوں گے، اور ان پانچ حصوں کو آپس میں طے شدہ شرح کے مطابق آدھا آدھاتقسیم کیا جائے گا۔نیچے دیا گیا جدول ملاحظہ فرمائے:

مضارب کا بحیثیت شریک نفع

171,428

85,714 × 2

مضارب کا بحیثیت مضارب  نفع

214,285

85,714 × 2.5

رب المال کا نفع

214,285

85,714 × 2.5

            مولانا سعد اللہ (مضارب) کو (171,428 + 214,285) یعنی کل 385,713    روپے ملیں گے اور مولانا عبد اللہ (رب المال) کو  214,285    روپے ملیں گے۔

حوالہ جات
"الأصل  أن یکون رأس الشرکۃ موجودات نقدیۃ،یمکن بھا تحدید مقدار رأس المال ، لتقریر نتیجۃ المشارکۃ من ربح أو خسارۃ ،ومع ذالك  یجوز باتفاق الشرکاء الأسھام بموجودات غیر نقدیۃ(عروض)،بعد تقویمھا بالنقد لمعرفۃ مقدار  حصۃ الشریك  ."(المعاییر الشرعیۃ:207)
وعن أحمد رواية أخرى، أن الشركة والمضاربة تجوز بالعروض، وتجعل قيمتها وقت العقد رأس المال. قال أحمد: إذا اشتركا في العروض، يقسم الربح على ما اشترطا. وقال الأثرم: سمعت أبا عبد الله يسأل عن المضاربة بالمتاع؟ فقال: جائز. فظاهر هذا صحة الشركة بها.
اختار هذا أبو بكر، وأبو الخطاب. وهو قول مالك، وابن أبي ليلى. وبه قال في المضاربة طاوس، والأوزاعي، وحماد بن أبي سليمان؛ لأن مقصود الشركة جواز تصرفها في المالين جميعا، وكون ربح المالين بينهما، وهذا يحصل في العروض كحصوله في الأثمان، فيجب أن تصح الشركة والمضاربة بها، كالأثمان. (المغنی: 13/5)
ولا تصح إلا بشرطين؛ أحدهما، أن يكون رأس المال دراهم أو دنانير. وعنه تصح بالعروض، ويجعل رأس المال قيمتها وقت العقد. (الشرح الکبیر علی المقنع: 12/14)
أن يكون رأس المال من الدراهم أو الدنانير عند عامة العلماء فلا تجوز المضاربة بالعروض، وعند مالك - رحمه اللہ -: هذا ليس بشرط وتجوز المضاربة بالعروض. (بدائع الصنائع: 82/6)
(وأما) القسم الذي للمضارب أن يعمله إذا قيل له: اعمل برأيك وإن لم ينص عليه، فالمضاربة والشركة والخلط، فله أن يدفع مال المضاربة مضاربة إلى غيره، وأن يشارك غيره في مال المضاربة شركة عنان، وأن يخلط مال المضاربة بمال نفسه، إذا قال له رب المال: اعمل برأيك وليس له أن يعمل شيئا من ذلك، إذا لم يقل له ذلك أما المضاربة فلأن المضاربة مثل المضاربة.(بدئع الصنائع: 95/6)
وكذا له أن يخلط مال المضاربة بمال نفسه؛ لأنه فوض الرأي إليه، وقد رأى الخلط وإذا ربح قسم الربح على المالين، فربح ماله يكون له خاصة، وربح مال المضاربة يكون بينهما على الشرط.(بدائع الصنائع: 98/6)
والربح إنما يستحق بالمال أو بالعمل أو بالضمان. (رد المحتار: 646/5)
(لا) يملك (المضاربة) والشركة والخلط بمال نفسه (إلا بإذن أو اعمل برأيك) إذ الشيء لا يتضمن مثله.(الدر المختار مع رد المحتار: 649/5)
(قوله والخلط بمال نفسه) أي أو غيره كما في البحر إلا أن تكون معاملة التجار في تلك البلاد أن المضاربين يخلطون، ولا ينهونهم فإن غلب التعارف بينهم في مثله وجب أن لا يضمن كما في التتارخانية. (رد المحتار:649/5)

راجہ باسط علی

دارالافتاء جامعۃ الرشید، کراچی

07/رجب/1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

راجہ باسط علی ولد غضنفر علی خان

مفتیان

ابولبابہ شاہ منصور صاحب / فیصل احمد صاحب