021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مضاربت میں نفع کی تقسیم کا مسئلہ
72010مضاربت کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

ایک آدمی نے کریانے والے کو پیسے دیے اور دکان دار ان پیسوں سے کام کر رہا ہے۔ اس کا شرعی حکم کیا ہے؟ اور منافع دونوں میں کس طرح تقسیم ہوں گے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر یہ پیسے کاروبار کے لیے دیے ہیں تو ان پیسوں سے جتنا نفع ہوگا، وہ آپس میں طے شدہ تناسب سے تقسیم کیاجائے گا۔ اگر کوئی تناسب طے نہ کیا ہو یا رقم دیتے وقت یہ کہا کہ میں کچھ نفع لے لیا کروں گا یا دکان دار نے کہا کہ میں آپ کو کچھ نفع دے دیا کروں گا تو تناسب کے مجہول ہونے کی وجہ سے یہ معاملہ درست نہیں۔ ایسی صورت میں اس کی دی ہوئی رقم کا سارا نفع اِسی کو ملے گا اور دکان دار کو اتنا عرصہ کام کرنے کی اجرتِ مثل ملے گی۔

 بہرصورت اُس کریانے والے کے پاس اگر پہلے سے دکان میں کچھ سامان موجود ہے تو اس کی قیمت معلوم ہونا بھی ضروری ہے، تاکہ اُس کے اپنے سرمائے اور اِس  ملائے گئے سرمائے کے نفع کا تناسب معلوم ہوسکے ۔

اگر یہ پیسے کاروبار کے لیے نہیں دیے، بلکہ  بطور قرض دیے ہیں تو اس کے لیے قرض کی اصل رقم سے زائد پیسے لینا جائز نہیں۔

حوالہ جات
قال العلامۃ ابن عابدین الشامی رحمہ اللہ تعالٰی: (وشرطها) أمور سبعة : ….. (وكون الربح بينهما شائعا) فلو عين قدرا فسدت (وكون نصيب كل منهما معلوما) عند العقد. ومن شروطها: كون نصيب المضارب من الربح، حتى لو شرط له من رأس المال، أو منه ومن الربح، فسدت، وفي الجلالية: كل شرط يوجب جهالة في الربح، أو يقطع الشركة فيه، يفسدها.
(وإجارة فاسدة إن فسدت فلا ربح) للمضارب (حينئذ بل له أجر) مثل (عمله مطلقا) ربح أو لا (بلا زيادة على المشروط). (رد المحتار: 645,648/5)
وقال أیضاً: إن الربا هو الفضل الخالي عن العوض.  (ردالمحتار: 21/5)
وقال الإمام محمد  رحمہ اللہ تعالٰی: لو قال: ما رزقك الله من شيء في ذلك. وكذلك لو قال: ما كان في ذلك من ربح فهو بيننا. وكذلك …... فإذا عمل في المال فربح فيه ربحا، فهو بينهما نصفان. (الأصل: 122/4)
وقال جماعۃ  من العلماء رحمھم اللہ تعالٰی: يشترط في المضاربة أن يكون رأس المال معلوما كشركة العقد أيضا، وتعيين حصة العاقدين من الربح جزءا شائعا، كالنصف والثلث، ولكن إذا ذكرت الشركة على الإطلاق بأن قيل مثلا: الربح مشترك بيننا، يصرف إلى المساواة. (مجلۃ الأحکام العدلیۃ: 272)

محمد عنداللہ بن عبدالرشید

دارالإفتاء جامعۃ الرشید کراچی

9/رجب المرجب/ 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عبد اللہ بن عبد الرشید

مفتیان

ابولبابہ شاہ منصور صاحب / شہبازعلی صاحب