021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مختلعہ کا دورانِ عدت ملازمت کے لیے گھر سےنکلنا
71943طلاق کے احکامعدت کا بیان

سوال

میری بیٹی پرائمری ٹیچر ہے،اس جاب کی صورت میں خلع کی عدت کیسے ہوگی؟یعنی عدت کے دوران وہ پڑھانے کے لیے جاسکے گی یا نہیں؟

تنقیح: سائلہ سے معلوم ہوا کہ اس کی بیٹی گورنمنٹ اسکول میں پرائمری ٹیچر ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

نابالغ بچوں کا نان نفقہ توبالغ ہونے تک باپ کے ذمے لازم ہے،اسی طرح عدت کے دوران بیوی کا نان نفقہ بھی شوہر کے ذمے لازم ہے،اس لیے طلاق یافتہ عورت کا عدت کے دوران ملازمت کے لیے گھر سے نکلنا جائز نہیں ،تاہم اگر شوہر اپنا فرض پورا نہ کرتا ہو اور بیوی بچوں کو نان نفقہ نہ دیتا ہو اور شوہر کے علاوہ عورت کا کوئی قریبی رشتہ دار بھی اس کا نان نفقہ نہ دے سکتا ہو تو پھر پہلی کوشش تو یہ ہونی چاہیے کہ عدت کے دورانیہ کی ملازمت سے چھٹی لے لی جائے،اگر اتنے لمبے عرصے کی چھٹی نہ مل سکے تو جتنی مل سکتی ہو اتنے عرصے کی چھٹی لے لی جائے اور اس کے بعد پھر بوجہ مجبوری دن کے وقت ملازمت کے لیے  گھر نکلنے کی گنجائش ہوگی،لیکن ملازمت کا وقت پورا ہوتے ہی گھر واپس لوٹنا لازم ہے۔

حوالہ جات
"رد المحتار" (3/ 536):
"قال في الفتح: والحاصل أن مدار حل خروجها بسبب قيام شغل المعيشة فيتقدر بقدره، فمتى انقضت حاجتها لا يحل لها بعد ذلك صرف الزمان خارج بيتها. اهـ. وبهذا اندفع قول البحر إن الظاهر من كلامهم جواز خروج المعتدة عن وفاة نهارا ولو كان عندها نفقة، وإلا لقالوا: لا تخرج المعتدة عن طلاق، أو موت إلا لضرورة فإن المطلقة تخرج للضرورة ليلا، أو نهارا اهـ.
ووجه الدفع أن معتدة الموت لما كانت في العادة محتاجة إلى الخروج لأجل أن تكتسب للنفقة قالوا: إنها تخرج في النهار وبعض الليل، بخلاف المطلقة. وأما الخروج للضرورة فلا فرق فيه بينهما كما نصوا عليه فيما يأتي".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

08/رجب1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب