021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
شراکت داری ختم کرنے کا طریقہ
72370شرکت کے مسائلشرکت سے متعلق متفرق مسائل

سوال

میں (سفیان محفوظ) اور حارث، ہم دونوں نے مل کر پانی کا کام شروع کیا تھا۔ میں نے ڈیڑھ لاکھ روپے ادھار لیے تھے اور میرے اور حارث کے درمیان یہ طے ہوا تھا کہ اِس ڈیڑھ لاکھ روپے کو دونوں مل کر واپس کریں گے۔ کام شروع ہوگیا اور دونوں مل کر کام کرتے رہے، سب کچھ صحیح چل رہا تھا اور آہستہ آہستہ دونوں مل کر ادھار واپس کررہے تھے۔ پھر ہم دونوں نے مل کر ادھار پر ایک لوڈنگ گاڑی خرید لی، پچپن ہزار روپے کی تین مہینوں کی قسطوں پر اور اُس لوڈنگ گاڑی کی قسط بھی ہم دونوں مل کر اتار رہے تھے۔ اب میں (سفیان محفوظ) اِس کام سے الگ ہورہا ہوں تو میرے الگ ہونے میں شریعت کیا فیصلہ کرتی ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ صورت میں آپ شرکت سے الگ ہوسکتے ہیں۔ جس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ عقدِ شرکت ختم کریں اور جو مال قابلِ تقسیم ہو، وہ آپس میں تقسیم کریں اور جو مال قابلِ تقسیم نہ ہو، اُس کی قیمت لگالی جائے، پھر جسے اُس سامان کی ضرورت ہے وہ یہ سامان رکھ کر آدھی قیمت دوسرے کو دے دے۔ جتنا قرض ہے وہ بھی دونوں مشترک طور پر ادا کریں گے۔ اور اگر دونوں میں سے کوئی ایک کاروبار جاری رکھنا چاہتا ہے اور دوسرا اُس سے الگ ہونا چاہتا ہے تو پورے کاروبار کی قیمت لگا کر دوسرے کو اُس کے حصے کے بقدر رقم دے کر اُس کا حصہ خرید لیا جائے۔

حوالہ جات
قال العلامۃ الحصکفي رحمہ اللہ تعالی: (و) تبطل أيضا (بإنكارها) وبقوله: لا أعمل معك. فتح. (وبفسخ أحدهما)، ولو المال عروضا.(الدر المختار مع رد المحتار: 4/327)
قال العلامۃ الطوري رحمہ اللہ تعالی: (ولا تدخل في القسمة الدراهم إلا برضاهم): وإذا كان أرض وبناء فعن الثاني أنه يقسم باعتبار القيمة؛ لأنه لا يمكن اعتبار التعديل فيه، إلا بالتقويم؛ لأن تعديل البناء لا يمكن إلا بالمساحة، والمساحة هي الأصل في الممسوحات، ثم يرد من وقع البناء في نصيبه قيمة البناء، أو من كان أجود دراهم على الآخر، فتدخل الدراهم في القسمة ضرورة.(تکملۃ البحر الرائق: 8/174)
وقال العلامۃ الطوري رحمہ اللہ تعالی: وإن قسما دارا فإنه يقسم العرصة بالذراع، ويقسم البناء بالقيمة. ثم هذا على ثلاثة أوجه، فتارة يقسما الأرض نصفين، ويشترطا أن من وقع البناء في نصيبه يعطي لصاحبه نصف قيمة البناء، وقيمة البناء معلومة، أو اقتسموا ذلك وقيمة البناء غير معلومة بأن اقتسموا الأرض، ولم يقتسموا البناء، فإن اقتسموا الأرض، وشرطا في البناء، كما تقدم، فيكون بيعا مشروطا في القسمة. وهذا البيع من ضرورات القسمة، فيكون له حكم القسمة، فيجوز.(تکملۃ البحر الرائق: 8/176)
قال العلامۃ الزیلعی رحمہ اللہ تعالی: وبيع المشاع يجوز من شريكه ومن غير شريكه بالإجماع، سواء كان مما يحتمل القسمة أو مما لا يحتمل القسمة. (تبیین الحقائق: 5/126)

صفی ارشد

دارالافتاء، جامعۃ الرشید، کراچی

15/رجب /1442

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

صفی ارشد ولد ارشد ممتاز فاروقی

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب