72136 | کفالت (ضمانت) کے احکام | متفرّق مسائل |
سوال
ایک کمپنی ایک لاکھ پر فیصد کے حساب سے نفع دے رہی ہے۔ جو کم و بیش سات ہزار بنتا ہے۔ میں کسی کے ایک لاکھ کا ضامن بن جاؤں کہ کمپنی والے اگر بھاگ گئے تو میں آپ کو ایک لاکھ دوں گا۔ کیا اِس ضمانت پر میرے لیے اُس کے نفع سے متعین حصہ دو ہزار تک یا فیصدی حصہ لینا جائز ہے، جبکہ میں نے خود ذاتی طور پر بھی اِس کمپنی میں ایک لاکھ تک انویسمنٹ کی ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
کسی چیز کی ضمانت دینے پر کچھ بھی رقم وغیرہ لینا جائز نہیں۔ لہذا آپ کے لیے دو ہزار یا فیصدی حصہ لینا جائز نہیں۔ اِسی طرح یہ بھی یاد رہے کہ کسی بھی کمپنی کو دیے ہوئے سرمایے کا فیصدی حصہ بطور نفع متعین کرنا سود کے زمرے میں آتا ہے۔ لہذا اگر ایسا کوئی نفع لیا ہو تو اُسے بغیر ثواب کی نیت کے صدقہ کرنا ضروری ہے۔
حوالہ جات
قال العلامۃ الحصکفي رحمہ اللہ تعالی: ولا تصح الکفالۃ ( بمبيع) قبل قبضه (ومرهون وأمانة) بأعيانها. (الدر المختار مع رد المحتار: 5/309)
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی: قوله: (ومرهون وأمانة): اعلم أن الأعيان إما مضمونة على الأصيل أو أمانة. فالثاني، كالوديعة ومال المضاربة والشركة والعارية والمستأجر في يد المستأجر. (رد المحتار: 5/309)
قال العلامۃ الحصکفي رحمہ اللہ تعالی: (وشرطها): أي المضاربۃ، أمور سبعة... (وكون الربح بينهما شائعا) فلو عين قدرا فسدت (وكون نصيب كل منهما معلوما) عند العقد.(الدر المختار مع رد المحتار: 5/648)
صفی ارشد
دارالافتاء، جامعۃ الرشید، کراچی
15/ رجب /1442
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | صفی ارشد ولد ارشد ممتاز فاروقی | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |