021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مبیع میں زیادتی کے ساتھ شرط کا حکم
72138خرید و فروخت اور دیگر معاملات میں پابندی لگانے کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

ایک آدمی نے دوسرے پر 2 لاکھ میں اپنی زمین بیچ دی اور ساتھ میں کچھ زمین مفت میں بھی دی اور کل زمین پر یہ شرط لگائی کہ مشتری اس زمین میں مدرسہ بنائے گا،مشتری نے یہ شرط قبول کر لی اور بائع نے ثمن پر قبضہ کرلیا، چند سال( ۸-۹) کے بعد مشتری نے بائع سے اس زمین پر قبضہ چاہا اور ساتھ ہی اس شرط کو ماننے سے بھی انکار کیا جو شرط ان دونوں نے لگائی تھی، شرط سے انکار کرنے کی وجہ سے بائع نے زمین حوالہ کرنے سے انکار کیا اب مشتری کہتا ہے کہ یا تو زمین میرے حوالہ کرو اور شرط مجھے منظور نہیں بلکہ میری مرضی ہے کہ میں اس زمین میں کچھ بھی ( قبرستان ، گھر وغیرہ) بناؤں یا میرے پیسے واپس کرو جو میں نے آپ کو دیئے تھے، لیکن جب میں نے زمین آپ سے خریدی تھی تووہ دو لاکھ کی تھی اور اب زمین پانچ لاکھ کی ہوچکی ہے ، لہذا مجھے 5 لاکھ واپس کرو۔

اب سؤال یہ ہے کہ مذکورہ شرط کے ساتھ یہ بیع درست ہوئی کہ نہیں ؟اور اگر شرط درست ہے تو مشتری پر پورا کرنا لازم ہے یا نہیں؟ اور اگرشرط درست نہ ہو تو مشتری بائع سے پانچ لاکھ کا مطالبہ کرسکتا ہے کہ نہیں؟ 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اصل زمین کے ساتھ مفت زمین بھی چونکہ فروخت شدہ زمین کے تناظر میں دی جارہی ہے، لہذا وہ بھی مبیع میں زیادتی ٹھہرے گی اورمجموعی(اصل مع زیادتی) فروخت شدہ زمین میں مدرسہ بنانے کی شرط چونکہ مفسد عقد ہے،لہذا یہ عقد واجب الفسخ ہے، اوراسے سابقہ قیمت پر فسخ کرنا ہی ضروری ہے،مشتری کا موجودہ قیمت پر فسخ کا مطالبہ درست نہیں،لانہ اقالۃ معنی،البتہ بائع نے اب تک مشتری سے وصول کردہ دو لاکھ روپےسے اگر کسی قدر نفع کمایا ہے تو وہ اس کے لیے استعمال کرنا مکروہ ہے،بلکہ اس کو چاہئےکہ وہ دو لاکھ کے ساتھ اس سے حاصل شدہ منافع بھی مشتری کو واپس کردے۔لاختلاف الروایات

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 86)
فلو شرط أن يسكنها فلان أو أن يقرضه البائع أو المشتري كذا فالأظهر الفساد ذكره أخي زاده وظاهر البحر ترجيح الصحة
 (قوله فالأظهر الفساد) وبه جزم في الفتح بقوله: وكذا إذا كانت المنفعة لغير العاقدين، ومنه إذا باع ساحة على أن يبني بهامسجدا أو طعاما على أن يتصدق به فهو فاسد. اهـ.
ومفاده أنه لا يلزم أن يكون الأجنبي معينا، وتأمله مع ما قدمناه آنفا عن الخلاصة، إلا أن يجاب بأن المسجد والصدقة يراد بهما التقرب إلى الله تعالى وحده، وإن كانت المنفعة فيهما لعباده، فصار المشروط له معينا بهذا الاعتبار تأمل

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۱۵رجب۱۴۴۲ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب