021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تعزیت کے موقع پر ہاتھ اٹھا کر دعاکرنا
71925جنازے کےمسائلتعزیت کے احکام

سوال

تعزیت کی دعا میں ہاتھ اٹھانے کا کیا حکم ہے؟(بعض علماء ناجائز جبکہ بعض دیگر جائز فرماتے ہیں اور دلیل میں بخاری و مسلم کی روایت پیش کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے عبید ابو عامر رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر سن کر ان کے لیے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی تھی،نیز شاہ محمد اسحاق رحمہ اللہ تعالیٰ نے بھی مسائل اربعین میں اس کو جائز لکھا ہے۔)

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

تعزیت کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ تعزیت کرنے والا اہل میت سے تعزیت (تسلی) کے الفاظ کہے۔ تعزیت کے ماثور کلماتِ دعائیہ یہ ہیں:

۱۔اعظم اﷲ أجرک وأحسن عزاء ک وغفر لمیتک۔

۲۔إن للّٰہ ما أخذ ولہ ما أعطی وکل شیء عندہ بأجل مسمّی۔

خود ان کلمات کے بجائے ان کا ترجمہ اور مفہوم کہہ دینا بھی کافی ہے اور دونوں کو جمع کرنا بھی درست ہے۔

     تعزیت کے موقع پر سنت سے اسی قدر ثابت ہے،اس کے علاوہ دعا میں ہاتھ اٹھانا کسی بھی دلیل شرعی سے ثابت نہیں،بلکہ خلافِ تعامل صحابہ و سلف صالحین ہونے کی وجہ سے اس کا چھوڑ دینا ضروری ہے۔

    سوال میں مذکورہ بخاری و مسلم کی روایت سے دلیل پکڑنا اس لیے درست نہیں کہ اول تو اس میں تعزیت کا ذکر ہی نہیں،اس لیے کہ تعزیت ایامِ تعزیت میں اہل میت سے کی جاتی ہے،جبکہ ظاہر حدیث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ علیہ السلام کو اہل میت کی غیرموجودگی میں جب اس صحابی کی وفات کی خبر پہنچی تو آپ نے ان کے لیے مغفرت کی دعا فرمائی،لہٰذا اس حدیث کا تعزیت سے کوئی تعلق نہیں۔

نیزمسائل اربعین کی عبارت سے استدلال بھی درج ذیل چند وجوہ سےصحیح نہیں:

پہلی بات یہ کہ یہ غیر مجتہد کا قول ہے،جو کہ مقلد پر حجت نہیں۔

 دوسری بات یہ کہ یہ قول بھی بلا دلیل شرعی مذکور ہے اور بلا دلیل شرعی کسی غیر مجتہد کا قول معتبر نہیں۔

تیسری بات یہ کہ اس عبارت سےتعزیت کرنے والے کے لیےصرف ایک مرتبہ دعاء میں ہاتھ اٹھانے کا نفس جواز ثابت ہوتا ہے،جبکہ مروّجہ طریقہ میں ایک طرف تو اس عمل کاالتزام اور پابندی پائی جاتی ہے،جس سے ایک جائز اور مندوب عمل بھی ناجائز اور ممنوع ہوجاتا ہے۔جبکہ دوسری طرف ایک بار تعزیت کرنے والے بھی بار بار ہاتھ اٹھا اٹھاکر اس میں شریک ہوتے ہیں، جس کانہ تو کوئی قائل ہے اور نہ اس کا کوئی ثبوت  بلکہ جوازہے۔لہٰذا اس عبارت سے مروجہ دستور کے جواز پر استدلال درست نہیں۔

حاصل یہ کہ تعزیت کے وقت دعاء میں ہاتھ اٹھانا خلافِ سنت ہے جو کسی دلیل شرعی سے ثابت نہیں،بالفرض اگر کسی دلیل شرعی سے تعزیت کرنے والے کے لیے دعا میں ہاتھ اٹھانا ثابت بھی ہوتا تو بھی مروجہ دستور کے جواز کے لیے کافی نہ تھا،اس لیے کہ مروجہ دستور میں بلا تفریق تمام حاضرین (تعزیت کرنے والا، اہل میت اور جو ایک بار تعزیت کر چکے ہیں) ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتے ہیں جس کا ثبوت محتاجِ دلیل ہے۔(احسن الفتاوی: ج۱۰،ص۵۸، امداد المفتین:۱،۱۹۵ تا ۱۹۶)

البتہ اس مسئلے میں چونکہ فی الجملہ علماء کا اختلاف ہے،لہٰذا محض تعزیت کے وقت ہاتھ اُٹھانے پر کسی کو بدعتی کہنا یااس پر نکیر یا لعن طعن کرنا یا اس عمل کو قطعی بدعت کہنا درست نہیں،بلکہ اس طرزِ عمل سے اجتناب کرنا چاہیے۔

حوالہ جات
۔۔۔۔۔۔

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۹رجب۱۴۴۲ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے