72155 | خرید و فروخت کے احکام | خرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل |
سوال
مفتی صاحب! میں نے منرل واٹر کی سپلائی کا کام شروع کیا ہے بائک پرجس کے لیےمیں نےاپنے نام کے کارڈ اور بوتلیں بھی چھپوائی ہیں اور پلانٹ سے پانی خرید کر سپلائی کرتا ہوں۔اب مسئلہ یہ ہے کہ میرے ایک دوست نے کہا ہے کہ یہ کاروبار حرام ہے اور بہت سے لوگوں نے اس کاروبار کو چھوڑ دیا ہے تو آپ سے گزارش ہے کہ اس مسئلہ کی تفصیل سے آگاہ کردیں کہ یہ کاروبار جائز ہے کہ نہیں؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
پانی فراہم کرنے کا یہ کاروبار جائز ہے۔ اس میں کوئی قباحت نہیں۔
حوالہ جات
قال العلامۃ ابن نجیم رحمہ اللہ تعالٰی: وفي المحيط: بيع الماء في الحياض والآبار لا يجوز، إلا إذا جعله في إناء. (البحر الرائق: 306/5)
وقال أیضاً: إذا أحرز الماء بالاستقاء في آنية، والكلأ بقطعه جاز حينئذ بيعه؛ لأنه ملكه بذلك. (البحرالرائق: 84/6)
وقال العلامۃ ابن عابدین الشامی رحمہ اللہ تعالٰی: أما إذا أخرجه منها بالاحتيال، كما في السواني فلا شك في ملكه له لحيازته له في الكيزان، ثم صبه في البرك بعد حيازته. تأمل، ثم حرر الفرق بين ما في البئر وما في الجباب والصهاريج الموضوعة في البيوت لجمع ماء الشتاء بأنها أعدت لإحراز الماء، فيملك ما فيها، فلو آجر الدار لا يباح للمستأجر ماؤها، إلا بإباحة المؤجر. اهـ، ملخصا. (ردالمحتار: 67/5)
محمد عبداللہ بن عبدالرشید
دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی
18/ رجب المرجب/ 1442ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد عبد اللہ بن عبد الرشید | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |