72156 | زکوة کابیان | زکوة کے جدید اور متفرق مسائل کا بیان |
سوال
کیافرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید نے کسی جگہ کام کرنے کی ہامی بھری اور پیشگی اجرت کا مطالبہ کیا۔ بکر، جو کام کروانے والا ہے، نے پیشگی اجرت دے دی۔ مطلوبہ کام ابھی مکمل نہیں ہوا۔ پوچھنا یہ ہے کہ اس اجرت کی زکاۃ کس کے ذمہ ہے؟ زید پر یا بکر پر؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
بکر نے جب اجرت ادا کر دی ہے تو اب وہ رقم اس کی مِلک میں نہیں ہے۔ لہٰذا مذکورہ صورت میں زکاۃ کی ادائیگی زید کے ذمہ واجب ہے۔
حوالہ جات
وقال العلامۃالکاسانی رحمہ اللہ تعالٰی: إن الزكاة في الأجرة المعجلة تجب على الآجر؛ لأنه ملكه قبل الفسخ. (بدائع الصنائع: 6/2)
وقال العلامۃ ابن الھمام رحمہ اللہ تعالٰی: وأما زكاة الأجرة المعجلة عن سنين في الإجارة الطويلة التي يفعلها بعض الناس عقودا، ويشترطون الخيار ثلاثة أيام في رأس كل شهر، فتجب على الآجر؛ لأنه ملكها بالقبض، وعند الانفساخ لا يجب عليه رد عين المقبوض، بل قدره فكان كدين لحقه بعد الحول. وقال الشيخ الإمام الزاهد علي بن محمد البزدوي ومجد الأئمة السرخكتي: يجب على المستأجر أيضا؛ لأن الناس يعدون مال هذه الإجارة دينا على الآجر، وفي بيع الوفاء يجب زكاة الثمن على البائع، وعلى قول الزاهد والسرخكتي يجب على المشتري أيضا، وصرح السيد أبو شجاع بعدم الوجوب على المستأجر.
وفي الخلاصة قال: الاحتياط أن يزكي كل منهما. (فتح القدیر: 165/2)
محمد عبداللہ بن عبدالرشید
دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی
18/ رجب المرجب/ 1442ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد عبد اللہ بن عبد الرشید | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |