021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
غیر حاضری پر طلبہ سے مد طعام میں پیسے لینا
72242حدود و تعزیرات کا بیانتعزیر مالی کے احکام

سوال

سنا ہے تعزیر بالمال یعنی مالی جرمانہ لینا ائمہ اربعہ کے ہاں ناجائز ہے،لیکن کچھ مدارس میں خرچہ قیام اور خرچہ طعام وغیرہ کی مد میں غیر حاضری پر جرمانہ لیا جاتا ہے،کیا اس کی کوئی گنجائش ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

تعزیر بالمال جمہور فقہاء کے نزدیک جائز نہیں،لیکن غیر حاضری وغیرہ پر مدارس میں کھانے،پینے یا قیام کی مد میں طلبہ سے جو رقم لی جاتی ہے وہ اس کے تحت داخل نہیں،کیونکہ وہ رقم ان طلبہ کو فراہم کی جانے والی سہولیات تعلیم،ہاسٹل اور کھانے،پینے کی مد میں لی جاتی ہے جن کی ہر طالب علم کو مفت فراہمی مدرسہ کے ذمے لازم نہیں،لہذا انتظام و انصرام کی بہتری کے لیے اس کی گنجائش ہے۔

حوالہ جات
"الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي" (7/ 5596):
"التعزير بالمال: لا يجوز التعزير بأخذ المال في الراجح عند الأئمة  لما فيه م تسليط الظلمة على أخذ مال الناس، فيأكلونه. وأثبت ابن تيمية وتلميذه ابن القيم أن التعزير بالعقوبات المالية مشروع في مواضع مخصوصة في مذهب مالك في المشهور عنه، ومذهب أحمد وأحد قولي الشافعي، كما دلت عليه سنة رسول الله صلّى الله عليه وسلم مثل أمره بمضاعفة غرم ما لا قطع فيه من الثمر المعلَّق والكثَر (جمّار النخل)، وأخذه شطر مال مانع الزكاة، عزمة مات الرب تبارك وتعالى، ومثل تحريق عمر وعلي رضي الله عنهما المكان الذي يباع فيه الخمر، ونحوه كثير. ومن قال كالنووي وغيره: إن العقوبات المالية منسوخة، وأطلق ذلك، فقد غلط في نقل مذاهب الأئمة والاستدلال عليها".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

23/رجب1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب