021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
طلاق کے بعد کسی دوسرے مرد سے بغیر گواہوں کے نکاح کرکے پہلے شوہر کے نکاح میں آنے کا حکم
72174نکاح کا بیاننکاح کے منعقد ہونے اور نہ ہونے کی صورتیں

سوال

مفتی صاحب  مجھے آپ سے یہ پوچھنا تھا کہ میرا ایک مسئلہ ہے،جنوری 2019 میں میرے شوہر نے مجھے تین طلاقیں دی تھیں  اور اس وقت میں حاملہ تھی ،تیسرا مہینہ تھا ،میرے شوہر  نے مجھے میرے گھر میں طلاق دی اور  گھر سےچلے گئے۔  طلاق دینے کے بعد میں ان کے پاس گئی ،مجھے  کسی نے روکا بھی نہیں ،میری چھوٹی بیٹیاں تھیں  ،میں بہت گڑ گڑائی ،معافیاں مانگی ،بچوں کا حوالہ  دیا جب کہ لڑائی کی وجہ دونوں ہی کی تھی ۔ پھر میرے شوہر نے اس مسئلے کا حل نکالنے کے لیے اپنے جاننے والے  کسی مفتی صاحب کو بلوایا ،ان کا نام مفتی محمد علی جوہر ہے وہ۔۔۔۔۔کی ایک   مسجد میں  امامت کرتے ہیں۔انہوں نے یہ حل بتایا کہ  جب میری ڈیلیوری ہوجائے گی  تب میری عدت ختم ہوگی اور اس کے بعد حلالہ کرنا ہوگا کسی سے،اور پھر اسی شوہر سے نکاح جائز ہوگا۔پھر میں پورے 9 ماہ اسی شوہر کے ساتھ رہی جس نے مجھے طلاق دی تھی ۔ پھر جب ڈیلیوری ہوئی تب مفتی صاحب نے کہا کہ اب ان کی عدت ختم ہوگئی ہے  اب ان کا نکاح کسی اور سے  ہوسکتا ہے ۔ پھر انہی مفتی صاحب نے یہ کہہ کر کہ اور کوئی بندہ نہیں ملا  مجھ سے نکاح کرلیا ۔ اس نکاح میں صرف ایجاب و قبول ہوا  بغیر کسی گواہ کے ،پھر میاں بیوی والے تعلقات بھی قائم کیے اور چلے گئے۔ پھر اگلے دن مجھ سے گھومنے پھرنے کی باتیں کرنے لگے تو جو میرا  پہلا شوہر تھا جس نے پہلے طلاق دی تھی ،اس نے کہا کہ ان کو بولو طلاق دیں مجھے ، میں نے انہیں طلاق دینے کا کہا تو انہوں نے طلاق دے دی۔پھر اس مفتی صاحب کی طلاق کی عدت گزاری اور اس  دوران بھی میں پہلے شوہر کے ساتھ ہی رہی۔اس عدت کے بعد اسی پہلے شوہر کے ساتھ نکاح ہوا اوروہ بھی اس طرح کہ انہی مفتی صاحب نے گاڑی میں چلتے ہوئے  فقط نکاح کی دعا پڑھی یا پتا نہیں کیا کیا ، کوئی کاغذی کاروائی بھی نہیں کی اور مزید یہ کہ اس نکاح میں بھی کوئی گواہ نا تھے۔

                                    اب آپ مجھے بتائیں کہ یہ نکاح صحیح ہے یا نہیں؟ کیونکہ اب مجھے معلوم ہوا ہے کہ میں ناجائز اپنے شوہر کے ساتھ رہ  رہی ہوں ، اور میرا دل بھی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ ہمارا نکاح صحیح ہوا ہے۔اب آپ مجھے مشورہ دیں کہ میں کیا کروں؟

                                    اور اس سب کے بعد بھی اسی شوہر نے ایک طلاق دی ہے ۔دوبارہ سب ویسا ہی ہے ،کچھ صحیح نہیں ہوا ، بلکہ وہ مجھ پر ہاتھ بھی اٹھاتے ہیں ۔ میں بہت پریشان ہوں کہ کیا کروں ،میں آپ کے جواب کی منتظر ہوں۔

                                     تنقیح : سائلہ  سے جب مفتی صاحب  کے ساتھ ہونے والے نکاح کی تفصیل معلوم کی تو انہوں نے بتایا کہ میرے  پہلے شوہر اور میں اوپر ایک کمرے میں تھے اور مفتی صاحب  اور ان کے ساتھ ایک دوسرا شخص  ،گھر کے نچلے حصے میں تھے۔ ایجاب و قبول بھی موبائل فون پر میسج کے ذریعے سے  اس طرح ہوا تھا کہ مفتی صاحب نے میرے شوہر کے نمبر پر میسج میں ایجاب کیا اور میں نے میسج ہی کے ذریعے سے قبول  ہے کا میسج کیا۔

                                    نیز پہلے شوہر سے دوسری دفعہ نکاح سے متعلق جب پوچھا تو اس کی انہوں نے یہ تفصیل بتائی کہ میں اور میرے پہلے شوہر گاڑی میں  تھے اور مفتی صاحب گاڑی میں آکر بیٹھ گئے  اور  اور بس خطبہ پڑھا ، کوئی ایجاب و قبول بھی نہیں کرایا ،بس کہا نکاح ہوگیا

                        

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

حلالہ کے لیے نکاح کرنا حرام ہے۔ تین طلاقوں کے بعد کیے گئے دونوں نکاح  گواہ نہ ہونے کی وجہ سے فاسد اور غیر معتبر ہیں،اس لیے تین طلاقوں والا حکم بدستور باقی ہے یعنی پہلے شوہر سے اب بھی نکاح نہیں ہوسکتا ۔نیز عورت و مرد کا  موجودہ صورت حال میں بغیر نکاح کے  رہنا بھی جائز نہیں ،تین طلاقوں کے بعد اب تک جو دونوں مردوں سے تعلقات رکھے ،حرام کا ارتکاب کیا ،اس پر استغفار کریں اور صدق دل سے توبہ کریں ۔

            اس حالت میں عورت اپنے پہلے شوہر سے نکاح نہیں کرسکتی۔مزید یہ کہ پہلے شوہر کے پاس واپس آنے کے لیے کسی دوسرے مرد سے حلالہ کی شرط کے ساتھ نکاح کرنا حرام ہے ،البتہ اگر کسی دوسری جگہ پر صحیح نکاح بغیر کسی شرط کے ہو اور اگر وہ شوہر طلاق دے دے یا اس کا انتقال ہوجائے تو عورت عدت گزار لینے کے بعد اگر چاہے تو اس پہلے شوہر سے یا کسی بھی دوسرے مرد سے نکاح کرسکتی ہے۔

حوالہ جات
قال العلامۃ المرغینانی رحمہ اللہ:و لا ینعقد نکاح المسلمین إلا بحضور شاھدین حرین عاقلین بالغین مسلمین رجلین أو رجل و امرأتین ‘‘. ( الھدایۃ : 1/185  )             
                                       و قال ابن ھمام رحمہ اللہ:ولا ینعقد نکاح المسلمین إلا بحضور شاہدین عاقلین بالغین مسلمین رجلين ،أو رجل وامرأتين، عدولا كانوا أو غير عدول أو محدودين في القذف) اعلم أن الشهادة شرط في باب النكاح لقوله  صلى الله عليه وسلم :"لا نكاح إلا بشهود". (فتح القدیر : 3/199)
                                                قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ:ومن شرائط الإيجاب والقبول: اتحاد المجلس لو حاضرين.
و قال العلامۃ الشامی رحمہ اللہ:قوله:) اتحاد المجلس) :قال في البحر: فلو اختلف المجلس لم ينعقد.(رد المحتار علی الدر المختار:3/14)
و فی الفتاوی الھندیۃ:(وأما شروطه) فمنها العقل والبلوغ والحرية في العاقد (ومنها) أن يكون الإيجاب والقبول في مجلس واحد حتى لو اختلف المجلس بأن كانا حاضرين فأوجب أحدهما،فقام الآخر عن المجلس قبل القبول، أو اشتغل بعمل، يوجب اختلاف المجلس لا ينعقد، وكذا إذا كان أحدهما غائبا لم ينعقد،ولو أرسل إليها رسولا ،أو كتب إليها بذلك كتابا فقبلت بحضرة شاهدين سمعا كلام الرسول ،وقراءة الكتاب؛ جاز لاتحاد المجلس من حيث المعنى ،وإن لم يسمعا كلام الرسول ،وقراءة الكتاب، لا يجوز عندهما.(الفتاوی الھندیۃ:1/269)
و فی الفتاوی الھندیۃ:ويشترط العدد فلا ينعقد النكاح بشاهد واحد هكذا في البدائع, ولا يشترط وصف الذكورة حتى ينعقد بحضور رجل وامرأتين، كذا في الهداية, ولا ينعقد بشهادة المرأتين بغير رجل،وكذا الخنثيين إذا لم يكن معهما رجل، هكذا في فتاوى قاضي خان.
(الفتاوی الھندیۃ:1/267)
وقال ایضا:. وذكر في البحر هناك عن المجتبى أن كل نكاح اختلف العلماء في جوازه كالنكاح بلا شهود فالدخول فيه موجب للعدة. (رد المحتار علی الدر المختار:3/ 132)
وقال ایضا:ويمكن الجواب عن السمرقندي بأنه حمل المنكوحة نكاحا فاسدا على ما سقط منه شرط الصحة بعد وجود المحلية كالنكاح المؤقت، أو بغير شهود، أما منكوحة الغير فهي غير محل إذ لا يمكن اجتماع ملكين في آن واحد على شيء واحد (رد المحتار علی الدر  المختار :3/ 517)
و فی المؤطا للامام محمد رحمہ اللہ:عن أبي الزبیر أن عمر رضي اللّٰہ عنہ أتی برجل في نکاح لم یشہد علیہ إلا رجل وامرأة، فقال عمر: ہٰذا نکاح السرّ ولا نجیزہ، ولو کنت تقدمت فیہ لرجمت. (رواہ محمد في المؤطا :1/241)وذکر البیہقي عن الشافعي أنہ قال: ہو ثابت عن ابن عباس وغیرہ من الصحابة أي قولہ: لا نکاح إلا بشاہدین. (الجوہر النقی 2/79)         
وقال اللہ تعالی :وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا.(سورۃ الاسراء:32)
وقال العلامۃ ابن کثیر رحمہ اللہ: ولا تقربوا الزنى إنه كان فاحشة وساء سبيلا.يقول تعالى ناهيا عباده عن الزنا، وعن مقاربته، ومخالطة أسبابه ودواعيه {ولا تقربوا الزنى إنه كان فاحشة} أي ذنبا عظيما، {وسآء سبيلا} أي وبئس طريقا ومسلكا. (تفسیر ابن کثیر:2/376)
وروی الإمام البخاری عن ابن عباس رضی اللہ عنہ ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: لا
يخلون رجل بامرأة إلا مع ذي محرم فقام رجل، فقال: يا رسول الله، امرأتي خرجت حاجة، واكتتبت في غزوة كذا وكذا، قال: ارجع فحج مع امرأتك.(الجامع الصحیح: 5233 )

   محمد عثمان یوسف

     دارالافتاءجامعۃ الرشید کراچی

          18رجب المرجب 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عثمان یوسف

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب