021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
طلاق کے حوالے سے مفتی کے فیصلے کےمطابق طلاق کی خبر سے طلاق کا حکم
72179طلاق کے احکامطلاق کے متفرق مسائل

سوال

میں نے جامعة الرشید سے اپنی منکوحہ بیوی کے ساتھ مکالمہ کے بارے میں فتوی حاصل کیا تھا،جو اس درخواست کے ساتھ لف ہے،جس پر آپ کا جواب آیا تھا کہ طلاق واقع نہیں ہوئی،میری منکوحہ بیوی کے گھر والوں نے آپ کا بھیجا ہوا فتوی جامعہ بنوری ٹاؤن بھیجا سوال میں کچھ اضافے کے ساتھ جس کی تحریر بھی ساتھ میں لف کردی ہے،جس پر وہاں سے انہوں نے ایک طلاق واقع ہونے کا فتوی جاری کیا ہے۔

میری عرض یہ ہے کہ جب میں پہلی بار اپنا مسئلہ آپ کے ادارے سے پوچھنے آیا تو مفتی صاحب کے ساتھ زبانی ہم کلامی میں مجھے اپنے مسئلے کے حوالے سے تجدید نکاح کا کہا گیا تھا،تجدید نکاح کی وضاحت میں نے ایک مفتی صاحب سے پوچھی تو انہوں نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک طلاق لاگو ہوگئی ہے،جس کی بناء پر میں نے اپنی منکوحہ بیوی،اس کےبھائی اور سسر کو واٹسپ پر پیغام بھیجا جو یہ تھا:

Is message k mutabiq (posted on 5th September 2020 on facebook) ek talaq ho chuki hai as per muftie.

برائے مہربانی دونوں فتاوی کو سامنے رکھتے ہوئے میری راہنمائی فرمادیں کہ آیا میری منکوحہ بیوی آزاد ہوچکی ہے یا اب بھی میرے نکاح میں ہے؟

تنقیح:

سائل سے فون پر معلوم ہوا کہ اس کا مقصد بیوی کوطلاق کے حوالے سے مفتی کے فیصلے کی خبر دینا تھا،نیز طلاق والے میسج کے بعد سے لڑکی کی عدت (تین ماہواریاں) گزرچکی ہے اور اس  نے  اس دوران رجوع نہیں کیا،کیونکہ لڑکی کا رویہ ٹھیک نہیں ہے اور اس میسج کے بعد سے اب تک لڑکی والوں کی طرف سے بھی اس حوالے سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا۔

 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

طلاق کے اقرار سے قضاءً طلاق تب واقع ہوتی ہے جب شوہر کے الفاظ میں صراحت کے ساتھ طلاق کا اقرار پایا جارہا ہو،جبکہ مذکورہ صورت میں آپ کے میسج کے الفاظ (اس میسج کے مطابق جو پانچ ستمبر 2020 کو فیس بک پر پوسٹ کیا گیا تھا مفتی کے مطابق ایک طلاق ہوگئی ہے)طلاق کے اقرار میں صریح نہیں،بلکہ بظاہر آپ کا مقصد بیوی کو سابقہ میسج  میں کہے گئے طلاق کے کنایہ الفاظ کے حوالے سے بتائے گئے مفتی کے فیصلے کی خبر دینا تھا، جس کی تائید شوہر کے  اس جملے کی ابتداء اور انتہاء دونوں سے ہورہی ہے،کیونکہ شوہر نے جملے کے شروع میں اپنے سابقہ میسج(جس میں اس نے کنایہ الفاظ لکھے تھے) کا ذکر کرکے اس میسج سے طلاق واقع ہونے کی خبر دی ہے اور پھر آخر میں as per muftie لکھ کر اس  خبرکی نسبت بھی مفتی کی طرف کی ہے،اس لیے یہ عبارت اصلاً مفتی کے فیصلے کی حکایت ہے،اگرچہ ضمنی طور پر اس میسج میں وقوع طلاق کا اعتراف بھی موجود ہے،لیکن ضمنی اقرار کو فیصلے کا مدار نہیں بنایا جاسکتا،جیسا کہ قضاء کے دیگر مسائل سے متعلق عبارات فقہاء میں اس کی تصریح موجود ہے،نیز ایسا ضمنی اقرار تو حکایتِ طلاق کی دیگر صورتوں میں بھی موجود ہوتا ہے،لیکن اس کا اعتبار نہیں کیا جاتا۔

ان دلائل کی وجہ سےہماری رائے کے مطابق  آپ کے مذکورہ بالا میسج سے قضاءً بھی طلاق واقع نہیں ہوئی اور آپ کی بیوی بدستور آپ کے نکاح میں ہے،جب تک آپ اسے طلاق نہ دے دیں یا وہ آپ سے آپ کی رضامندی سے خلع نہ لے وہ کسی اور سے نکاح نہیں کرسکتی۔

واضح رہے کہ بنوری ٹاؤن سے جاری شدہ جواب میں جس فقہی جزئیہ کو طلاق واقع ہونے کا مدار بنایا گیا ہے ہماری رائے میں  وہ اس صورت پر منطبق نہیں ہوتا،کیونکہ ہمارے فہم کے مطابق اس جزئیہ  کا تعلق مخصوص الفاظ سے متعلق مفتی کے فیصلے کی حکایت سے نہیں ہے،بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص مفتی کے غلط مسئلہ بتانے کےبعد اپنی طرف سے طلاق کی خبر دے،یعنی ایسے الفاظ سے طلاق کا اقرار کرے جس میں شوہر کی طرف سے وقوع یا ایقاع طلاق کی خبر ہو،مثلا میں طلاق دے چکا ہوں،یا میری بیوی کو طلاق ہوچکی ہے وغیرہ۔

ملاحظہ: چونکہ مذکورہ صورت میں طلاق کے وقوع اور عدم وقوع کے حوالے سے دو متضاد موقف سامنے آئے ہیں،اس لیے میاں بیوی کے لیے بہتر  یہ ہے کہ احتیاطاً تجدیدِ نکاح کرلیں،تاکہ ازدواجی تعلقات کے حلال ہونے میں کسی قسم کا شک وشبہ باقی نہ رہے۔

احتیاطاً تجدید نکاح کا حکم یقینی طور پر طلاق واقع ہونے کے بعد نہیں دیا جاتا،جیسا کہ سائل کو بتایا گیا ہے،بلکہ اس وقت دیا جاتا ہے جب کسی وجہ سے نکاح کے برقرار رہنے میں شک پیدا ہوجائے تو اس شک و شبہ کو دور کرنے کے لیے احتیاطاً تجدیدِ نکاح کا مشورہ دیا جاتا ہے۔

حوالہ جات
"الدر المختار " (5/ 626):
"(القصص المرفوعة إلى القاضي لا يؤاخذ رافعها بما كان فيها من إقرار وتناقض) لما قدمنا في القضاء أنه لا يؤاخذ بما فيها (إلا إذا) أقر بلفظه صريحا".
"البحر الرائق " (6/ 304):
"وذكر الصدر الشهيد الاختلاف في قبول القاضي القصاص من الخصوم، والمذهب عندنا أنه لا يأخذها إذا جلس للقضاء، وإلا أخذها ثم ذكر الاختلاف في أن القاضي يؤاخذ بما كتب فيها، والمذهب لا إلا إذا أقر بلفظه صريحا ".
"درر الحكام في شرح مجلة الأحكام" (4/ 108):
"إذا صدر من المدعي شيء يدل على أن المدعى به ملك للمدعى عليه فليس للمدعي أن يدعي ذلك المال لنفسه، أو أن يدعيه لغيره؛ لأن في ذلك تناقضا: ولكن لو صدر من المدعي شيء يدل على كون المدعى به ليس ملكا له، ولكن لا يدل على كون المدعى به ملكا للمدعى عليه، فدعواه ذلك المال لنفسه باطلة أما دعواه لغيره فصحيحة وإذا كان الشيء الصادر من المدعي لا يدل على الإقرار بملكية المدعى عليه فيجب ترجيح ذلك بالقرائن، وإلا فلا يحصل الإقرار بالشك...
إن الاستشراء ليس بإقرار صريح بأن المال ملك للبائع بل هو إقرار ضمني؛ فلذلك لو استشرى أحد مالا من آخر وضبط أبو المشتري ذلك المال بالاستحقاق ثم توفي والده وورث المشتري ذلك المال فلا يؤمر الوارث برد المال للبائع ويسترد المشتري ثمن المبيع من البائع. أما إذا أقر صريحا حين البيع بأن ذلك المال ملك للبائع فيؤمر برد ذلك المال".
"الدر المختار " (4/ 247):
 "وما فيه خلاف يؤمر بالاستغفار والتوبة وتجديد النكاح".
قال ابن عابدین رحمہ اللہ:" (قوله والتوبة) أي تجديد الإسلام (قوله وتجديد النكاح) أي احتياطا كما في الفصول العمادية. وزاد فيها قسما ثالثا فقال: وما كان خطأ من الألفاظ ولا يوجب الكفر فقائله يقر على حاله، ولا يؤمر بتجديد النكاح ولكن يؤمر بالاستغفار والرجوع عن ذلك، وقوله احتياطا أي يأمره المفتي بالتجديد ليكون وطؤه حلالا باتفاق، وظاهره أنه لا يحكم القاضي بالفرقة بينهما".

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم بالصواب

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

18/رجب1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب