021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بز کوائن کا حکم
72217خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ آج کل  ڈیجٹل  کرنسی کا دور دورہ ہے ،اسی میں ایک کرنسی بز کوائن کے نام سے ہے ،جوکہ فوریکس ٹریڈنگ کرتی ہے۔یہ کوئن خریدنے کے بعد  یومیہ غیر متعین منافع ملتا ہے ،جوکہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ نیز اگر کسی اور کو یہ کرنسی خریدنے کے لیے قائل کیا جائے  اور وہ خرید بھی لے تو اس کی انویسٹمنٹ  کا دس فیصد بطور بونس ملتا ہے، جس کو ڈائریکٹ بونس کہا جاتا ہے۔نیز اگر یہ سلسلہ مزید چلے اور وہ دوسرا شخص کسی اور کو قائل کرے اور وہ بھی خریدے  اور ان کی انویسٹمنٹ ایک خاص مقدار کو پہنچے تو  اس کا 7 فیصد بطور بونس ملتا ہے جوکہ بائنری بونس کہلاتا ہے۔ مثلا ایک شخص کے دائیں اور بائیں  دو افراد نے 100 یورو  کی انویسٹ کی تو اس کا 7 فیصد بطور بونس ملتا ہے۔

  اب سوال یہ ہے کہ پاکستان میں ڈیجٹل کرنسی کے لیگل ہونے کے بعد خریدو فروخت جائز ہے؟ اور اس سے ملنے والا منافع اور بونس کا کیا حکم ہے ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

بزکوائین کی آفیشل ویب سائٹ و دیگر تعارفی ویڈیوز سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ :           

"بز ٹریڈ" کے کام میں بنیادی طور پر تین بڑے مسائل ہیں:

1: کمپنی انویسٹر سے پیسے لیتی ہے اور اسے "بز کوائن" دیتی ہے۔ لیکن یہ "بز کوائن" فوراً نہیں دیتی بلکہ کچھ عرصے بعد دیتی /ریلیز کرتی ہے۔ اس کی وہ اپنی وجوہات بیان کرتی ہے۔ مزید یہ کہ جو رقم انویسٹر سے لی

 ہوتی ہے اس پر اسے پرافٹ کا حصہ بھی دیتی ہے۔

2: اس میں نفع کی تقسیم انویسٹمنٹ کی پرسنٹیج کے مطابق ہوتی ہے۔

3: تیسرا مسئلہ اس میں ملٹی لیول مارکیٹنگ کا ہے۔ ملٹی لیول مارکیٹنگ میں ممبر بنانے پر اور ممبروں کے آگے ممبر بنانے پر کمیشن ملتا ہے۔

            اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ بیع سلم ہے اور کمپنی انویسٹر کو "بز کوائن" بیچ رہی ہے تو یہ پرافٹ کس چیز کا ہے؟ اور اگر یہ انویسٹمنٹ ہے جس پر کمپنی نفع دیتی ہے تو "بز کوائن" کیوں دی جا رہی ہیں؟ پرافٹ یا بز کوائن میں سے کوئی ایک چیز یہاں اضافی ہے اور کسی عقد (خرید و فروخت کے معاملے) میں  جو اضافی چیز بغیر کسی عوض کے دی جا رہی ہوتی ہے وہ "سود" کے حکم میں ہوتی ہے۔

            شریعت کے لحاظ سے سرمایہ کار اور کمپنی کے درمیان یہ بات طے ہونا ضروری ہے کہ جو بھی نفع ہوگا وہ کتنے کتنے فیصد تقسیم ہوگا؟ اگر کسی ایک کو اس کی انویسٹمنٹ کے لحاظ سے نفع دیا جائے تو یہ درست نہیں ہے، اگرچہ اس کی پرسنٹیج کم زیادہ ہوتی رہے۔

            اس میں جو ممبر ڈائریکٹ بنایا ہو اس کا کمیشن اس شرط کے ساتھ لینا جائز ہے کہ کمپنی کا اصل کام درست ہو۔ یہاں اصل کام میں ہی اوپر مذکور مسائل ہیں۔ ان ڈائریکٹ ممبر کا رائج طریقہ کار کے مطابق کمیشن جائز نہیں ہے۔

            لہٰذا ان وجوہات سے  نیز اس وجہ سے کہ کرپٹو کرنسی کی مالیت و ثمنیت ابھی تک قانونا و شرعا تسلیم شدہ نہیں ،مذکورہ کاروبار شرعا ناجائز ہے،اس میں سرمایہ کاری کرنا اور نفع لینا جائز نہیں۔

حوالہ جات
قال اللہ تبارک و تعالی:وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ.(سورۃ المائدۃ:2)
و قال ایضا:ياأيها الذين آمنوا اتقوا الله وذروا ما بقي من الربا إن كنتم مؤمنين .فإن لم تفعلوا فأذنوا بحرب من الله ورسوله وإن تبتم فلكم رءوس أموالكم لا تظلمون ولا تظلمون.
  (سورۃ البقرۃ:278،279)
وقال ایضا:ولا تأكلوا أموالكم بينكم بالباطل وتدلوا بها إلى الحكام لتأكلوا فريقا من أموال الناس بالإثم وأنتم تعلمون. (سورۃ البقرۃ:188)
قال العلامۃ الشامی رحمہ اللہ:وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به، وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل، وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام، وعنه قال: رأيت ابن شجاع يقاطع نساجا ينسج له ثيابا في كل سنة.  (رد المحتار علی الدر المختار:6/63)
و فیہ أیضا:قال في البزازية: إجارة السمسار والمنادي والحمامي والصكاك وما لا يقدر فيه الوقت ولا العمل تجوز لما كان للناس به حاجة ويطيب الأجر المأخوذ لو قدر أجر المثل وذكر أصلا يستخرج منه كثير من المسائل فراجعه في نوع المتفرقات والأجرة على المعاصي.
             (رد المحتار علی الدر المختار:6/47)
وفی الدر المنتقی مع  مجمع الأنھر:و کون الربح بینھما مشاعا، فتفسد إن شرط لأحدھما عشرۃ دراھم مثلا.(الدرالمنتقی :3/446)

محمد عثمان یوسف

     دارالافتاءجامعۃ الرشید کراچی

          22 رجب المرجب 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عثمان یوسف

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب