021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اپنی زندگی میں کوئی چیز ہبہ کردینے کے بعد بقیہ ورثا میں تقسیم میراث کا طریقہ
72282ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

  کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ :

                                    1۔ایک شخص نے اپنی زندگی میں وفات پا جانے والی بیٹی کی اولاد کو بلایا  جو کہ سب چھوٹے تھے  اور کہا کہ جو حصہ میری بیٹی کا بنتا تھا وہ میں آپ لوگوں کو دیتا ہوں ،وہ جگہ (جوکہ ایک پہاڑی ہے) بھی متعین کردی اور اس شخص کے نواسے نواسوں نے  اسے قبول بھی کرلیا ۔اس پر گواہ تو موجود ہیں البتہ کاغذات میں وہ زمین اس شخص کے نام پر ہی رہی۔بعد میں اس ہبہ کرنے والے شخص کا انتقال ہوگیا ۔اب سوال یہ ہے کہ اس کے جو ورثہ زندہ ہیں ان میں ساری زمین تقسیم ہوگی یا جو وہ شخص اپنے نواسوں کو دے چکا ہے ،اس کے علاوہ بقیہ میں میراث کے احکام جاری ہوں گے؟

                                    2۔نیز اس شخص کے ورثا میں تقسیم میراث کیسے ہوگی؟   اس شخص کے انتقال کے وقت ورثا میں ایک بیٹا، اور چار بیٹیاں تھیں ،اب وہ بیٹا بھی فوت ہوچکا ہے ،فقط چار بیٹیاں زندہ ہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

            تنقیح:بچوں کی بلوغت و ہبہ کے الفاظ کے لیے سب سائل سے معلوم کیا گیا تو یہ تفصیل سامنے آئی کہ اس وقت سب کے سب بچے نابالغ تھے اور نانا نے جب ہبہ کیا تو اس وقت بچوں کے ساتھ ان کے والد بھی موجود تھے ۔ نانا نے یہ کہا کہ میں نے زمین کا یہ ٹکڑا ان بچوں کو دیا ، تو ان بچوں نے بھی اور ان کے والد نے بھی اس ہبہ کو قبول کیا کہ ٹھیک ہے یہ ہمارا ہوگیا۔

            دوسری بات یہ سامنے آئی کہ اب اس شخص(بچوں کے نانا) کی وفات کے بعد ان بچوں کے ماموں بھی وفات پاچکے ہیں ،ماموں کے علاوہ باقی جتنے بھی لوگ اس شخص(نانا) کے وارث بن رہے ہیں وہ سب کے سب اس ہبہ پر راضی ہیں کہ یہ ان بچوں ہی کو ملے ، البتہ جو ماموں وفات پاگئے ہیں ان کی دو شادیاں تھیں ،ان میں سے ایک بیوی اور اس کے بچے اس ہبہ پر راضی نہیں ہیں ، جبکہ دوسری بیوی اور  اس کے سب بچے اس ہبہ پر راضی ہیں ،نیز اس ہبہ کے گواہ بھی یہی لوگ ہیں۔اس سب تفصیل کے بعد سوال کا جواب:

            ہبہ تام ہونے کے لیے ضروری ہے کہ جس چیز کا ہبہ کیا جارہا ہو ،وہ متعین   چیز ہو ،پھر اگر وہ چیز ایک سے زیادہ لوگوں کو ہبہ کی جائے  اور چیز بھی ایسی ہو کہ تقسیم کے بعد بھی قابل انتفاع رہے تو  تقسیم کرکے دینا ضروری ہوتا ہے۔لہٰذا صورت مسئولہ میں نانا نے جب  اپنے نواسوں کو جب زمین ہبہ کی تو  وہ متعین تھی،نیز چونکہ بچے ابھی نابالغ تھے تو ان کے والد نے جب اس ہبہ کو بطور وکیل قبول کرلیا تو حکما یہ سب بچوں کا قبضہ ہی سمجھا جائے گا،ہر ہر بچے کو باقاعدہ تقسیم کرکے قبضہ کروانا ضروری نہ رہا، لہذا یہ ہبہ تام ہوگیا ۔اب جب ورثا میں میراث کی تقسیم ہوگی تو اس میں زمین  کا وہ ٹکڑا شامل نہیں کیا جائے گا جو نانا نے اپنے نواسوں کو ہبہ کیا تھا ،بلکہ اس کے علاوہ جو بقیہ جائداد ہے فقط اس میں میراث کے احکام جاری ہوں گے اور زمین کا یہ ٹکڑا ان بچوں کو ہی ملے گا جن کو ہبہ کیا گیا تھا۔

      2۔تقسیم میراث کا طریقہ:

      اگر مرحوم کے  ورثاء میں والدین،دادا ،دادی وغیرہ دیگر ورثاء میں سے کوئی موجود نہیں ہے اور صرف یہی ورثاء ہیں جو سوال میں درج ہیں  تو مرحوم کے ترکہ سے تجہیز وتکفین کا خرچ نکالنے کے بعد اگر ان کے ذمہ قرض وغیرہ مالی واجبات ہوں تو وہ  ادا کیے جائیں، پھر اگر انہوں نے کوئی جائزوصیت کسی غیر وارث کے لیے  کی ہو تو باقی ماندہ ترکہ کے ایک تہائی تک اسے پورا کیا جائے، پھر جو ترکہ بچ جائے   اس میں سے بیٹے کو33.33 فیصد( اس لیے کہ یہ بیٹا اپنے والد کی وفات کے وقت پر زندہ تھا ، اب جبکہ باقاعدہ میراث کی تقسیم کی جارہی ہے اور بیٹا وفات پاچکا ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، بلکہ ان کا حصہ ان کے ورثا کو مل جائے گا ) اور ہر بیٹی  کو 16.67 فیصد حصہ  دیا جائے گا ۔تفصیل کے لیے درج ذیل نقشہ ملاحظہ ہو۔یا یہ کہ اس شخص کی کل جائیداد کو 6 حصوں میں تقسیم کرلیا جائے ،اس میں سے 2 حصے بیٹے کو اور ہر بیٹی کو ایک حصہ دیا جائے گا۔

 

حوالہ جات
 قال  اللہ تبارک و تعالی:  يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ.(سورۃ النساء:11)
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ:(وهبة من له ولاية على الطفل في الجملة) وهو كل من يعوله فدخل الأخ والعم عند عدم الأب لو في عيالهم (تتم بالعقد) لو الموهوب معلوما وكان في يده أو يد مودعه، لأن قبض الولي ينوب. ( الدر المختار وحاشية ابن عابدين :5/ 694)
وقال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ:(قوله: على الطفل) فلو بالغا يشترط قبضه، ولو في عياله تتارخانية (قوله: في الجملة) أي ولو لم يكن له تصرف في ماله (قوله: بالعقد) أي الإيجاب فقط كما يشير إليه الشارح كذا في الهامش، وهذا إذا أعلمه أو أشهد عليه، والإشهاد للتحرز عن الجحود بعد موته والإعلام لازم لأنه بمنزلة القبض بزازية، قال في التتارخانية: فلو أرسل العبد في حاجة أو كان آبقا في دار الإسلام فوهبه من ابنه صحت فلو لم يرجع العبد حتى مات الأب لا يصير ميراثا عن الأب اهـ. (حاشية ابن عابدين علی الدر المختار:5/ 694)
وقال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ:و شرائط صحتها في الموهوب أن يكون مقبوضا غير مشاع مميزا غير مشغول.(الدر المختار:5/688)
قال العلامۃ الکاسانی رحمہ اللہ:وأما ما يرجع إلى الموهوب فأنواع: ومنها أن يكون محوزا فلا تجوز هبة المشاع فيما يقسم، وتجوز فيما لا يقسم ،كالعبد والحمام والدن ونحوها.
                             (بدائع الصنائع:6/119)
                                                وقال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ:و شرائط صحتها في الموهوب أن يكون مقبوضا غير مشاع مميزا غير مشغول.(الدر المختار:5/688)
و قال العلامۃ الکاسانی رحمہ اللہ:وليس له أن يدفع الوديعة إلى غيرهم، إلا لعذر، حتى لو دفع، تدخل في ضمانه؛ لأن المالك ما رضي بيده، ألا يرى أنه لا يرضى مال نفسه بيده، فإذا دفع؛ فقد صار مخالفا، فتدخل الوديعة في ضمانه إلا إذا كان عن عذر، بأن وقع في داره حريق، أو كان في السفينة، فخاف الغرق؛ فدفعه إلى غيره؛ لأن الدفع إليه في هذه الحالة تعين طريقا للحفظ، فكان الدفع بإذن المالك دلالة فلا يضمن، فلو أراد السفر؛ فليس له أن يودع؛ لأن السفر ليس بعذر.
                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                      (بدائع الصنائع:6/208)
و فی مسند أحمد: عن أبی حمید الساعدی ،أن رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  قال:"لا یحل لامرئ أن یأخذ مال أخیہ بغیر حق، و ذلک لما حرم اللہ مال المسلم علی المسلم .وفي رواية: لا يحل للرجل أن يأخذ عصا أخيه بغير طيب نفس.          ( مسند أحمد:23605)

   محمد عثمان یوسف

     دارالافتاءجامعۃ الرشید کراچی

          25 رجب المرجب 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عثمان یوسف

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب