021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
انشورنس کے بارے میں شرعی حکم
72292سود اور جوے کے مسائلانشورنس کے احکام

سوال

کیا فرماتے ہیں  مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ انشورنس   کی پالیسی کے بارے میں قرآن و سنت میں کیا حکم ہے۔کیا فرماتے ہیں  مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ انشورنس   کی پالیسی کے بارے میں قرآن و سنت میں کیا حکم ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

کمرشل انشورنس کی اس وقت جتنی بھی کمپنیاں قائم ہیں اور اس کی جتنی  بھی صورتیں رائج ہیں،وہ سب سود اور جوے کے اصولوں پر قائم ہیں اور سود او رجوا قرآن و سنت کی واضح تعلیمات کے مطابق حرام ہیں۔چنانچہ سورہ بقرہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:اللہ تعالیٰ نے خریدو فروخت  کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔[سورۃ بقرہ:275] دوسری آیت میں ارشاد ہے: اللہ تعالی سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔[سورۃ بقرہ:276] اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے،کھلانے والے،اس کی تحریر لکھنے والےاور اس کے گواہوں پرلعنت فرمائی ہے۔جوے کے بارے میں سورۃ مائدہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اے ایمان والو! شراب،جوا،بتوں کےتھان اور قرعہ کے تیر، یہ سب ناپاک شیطانی کام ہیں،لہٰذا اس سے بچو، تاکہ تمہیں فلاح حاصل ہو۔[سورہ مائدہ:90] لہٰذا انشورنس کی مروجہ تمام صورتوں سے بچنا لازم اور ضروری ہے۔

البتہ اب ہر انشورنس کمپنی تکافل کے اسلامی طریقے کی خدمات بھی دے رہی ہے۔ جن کے بارے میں بعض معتبر اہل علم جواز کے قائل ہیں۔عوام کے لیے ان پر اعتماد کرتے ہوئے تکافل کروانے کی گنجائش ہے۔

حوالہ جات
قال  اللہ تعالی فی سورۃ البقرۃ: احل اللہ البیع و حرم الربٰوایمحق اللہ الربٰوا  و یربی الصدقٰت.[سورۃ البقرۃ:276،275]
روی الإمام أبو دؤد رحمہ اللہ تعالی   :لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آکل الربا و موکلہ و شاھدیہ و کاتبہ.(سنن أبی داؤد ،رقم الحدیث:3333)
قال العلامۃأحمد بن علي أبو بكر الجصاص الرازي رحمہ اللہ تعالی:  والربا الذي كانت
 العرب تعرفه وتفعله ،إنما كان فرض الدراهم والدنانير إلى أجل بزيادة على مقدار ما استقرض على ما يتراضون به، ولم يكونوا يعرفون البيع بالنقد، وإذا كان متفاضلا من جنس واحد. هذا كان المتعارف المشهور بينهم، ولذلك قال الله تعالى: ﴿وما آتيتم من ربا ليربو في أموال الناس فلا يربو عند الله﴾ [الروم ٣٩] فأخبر أن تلك الزيادة المشروطة إنما
كانت ربا في المال العين؛ لأنه لا عوض لها من جهة المقرض.( أحکام القرآن:1/563)
قال العلامۃأحمد بن علي أبو بكر الجصاص الرازي رحمہ اللہ تعالی:  ولا خلاف بين أهل العلم في تحريم القمار ،وأن المخاطرة من القمار. قال ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ: إن المخاطرة قمار ،وإن أهل الجاهلية كانوا يخاطرون على المال والزوجة، وقد كان ذلك مباحا إلى أن ورد تحريمه. ( أحکام القرآن:1/398)

عرفان حنیف

دارالافتاء،جامعۃالرشید،کراچی

  26 رجب /1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عرفان حنیف بن محمد حنیف

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب