021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
پیشگی رقم ادا کرنے کی صورت میں ثمن میں کمی کرنے کا حکم
72486خرید و فروخت کے احکامبیع کی مختلف اقسام ، بیع وفا، بیع عینہ اور بیع استجرار کا بیان

سوال

ایک آدمی کریانے کی دکان سے کافی زیادہ مقدار میں ادھار سامان اٹھاتا ہے۔پھر دکاندار مہینے کے اختتام پر حساب کر کے ٹوٹل رقم میں سے دو فیصد رعایت کر دیتا ہے ۔ اب اس آدمی نے دکاندار سے کہا کہ میں تمہیں ایڈوانس رقم دیا کروں گا لیکن اس کے بدلے میں آپ مجھے دو کے بجائے چار فیصد رعایت کر دیں ۔ کیا شرعاًیہ معاملہ درست ہےکہ ایڈوانس رقم دے کر مطلوبہ سامان کی قیمت میں رعایت لی جائے ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مشتری ضرورت پڑنے پر وقتا فوقتا بائع سے سامان خریدتا رہے ، قیمت چاہے پہلے ادا کر دے یابعد میں ادا کرے ، اس کو بیع الاستجرار کہتے ہیں ۔ فقہاء احناف نے استحسانا خرید و فروخت کی اس صورت کو جائز قرار دیا ہے بشرطیکہ خرید و فروخت ایسی چیزوں کی ہو جن کی قیمت معین و معلوم  ہویا خرید و فروخت کےوقت قیمت کا ذکر کر دیا جائے۔

صورت مسئولہ میں اگر بائع و مشتری کے درمیان یہ بات طے ہو جاتی ہے کہ مشتری رقم پیشگی ادا کرے گا اور بائع اس کوسامان کی مجموعی مالیت پر چار فیصد رعایت دے گا توگویا ان دونوں کی باہمی رضامندی سے خریدے جانے والے سامان کی قیمت اس طور پر متعین ہو گئی ہے کہ مشتری مہینہ بھر جو سامان خریدے گا تو مارکیٹ ریٹ سے اس کی قیمت چار فیصد کم ہو گی،لہذاخریدوفروخت کی یہ صورت درست ہے ۔

واضح رہے کہ پیشگی ادا کی جانے والی رقم دکاندار کے پاس علی الحساب قرض ہو گی ۔ دوران مدت اگر عقد ختم کیا جاتا ہے تو دکاندار کے ذمہ لازم ہو گا کہ وہ بقایا رقم خریدارکوواپس کرے ۔

حوالہ جات
الدر المختار(4/ 516)
ما يستجره الإنسان من البياع إذا حاسبه على أثمانها بعد استهلاكها جاز استحسانا
قال: في الولوالجية: دفع دراهم إلى خباز فقال: اشتريت منك مائة من من خبز، وجعل يأخذ كل يوم خمسة أمناء فالبيع فاسد وما أكل فهو مكروه؛ لأنه اشترى خبزا غير مشار إليه، فكان المبيع مجهولا ولو أعطاه الدراهم، وجعل يأخذ منه كل يوم خمسة أمنان ولم يقل في الابتداء اشتريت منك يجوز وهذا حلال وإن كان نيته وقت الدفع الشراء؛ لأنه بمجرد النية لا ينعقد البيع، وإنما ينعقد البيع الآن بالتعاطي والآن المبيع معلوم فينعقد البيع صحيحا. اهـ.
قلت: ووجهه أن ثمن الخبز معلوم فإذا انعقد بيعا بالتعاطي وقت الأخذ مع دفع الثمن قبله، فكذا إذا تأخر دفع الثمن بالأولى
 
فقہ البیوع ( ج:1، ص :75)
وجرت العادۃ بان الثمن المدفوع مقدما قد یکون اقل میں قیمتہ السوقیۃ، وفی ھذہ الحالۃ ، لو امکن جعلہ سلما بشروطہ صار سلما ،وان لم یتوافر فیہ شروط السلم ، فربما یرد علیہ ان ثمن المبیع انما انتقص من اجل تعجیلہ ، کما فی اشتراک المجلات الدوریۃ  ، حیث یکون مبلغ الاشتراک السنوی اقل عادۃ من قیمتہ السوقیۃ لکل عدد ۔ ویمکن تخریج النقص فی الثمن علی اساس ان ثمن الجملۃ یکون اقل عرفا من ثمن القطاعی۔ فکذلک فی الاستجرار ، انما یقدم المشتری المبلغ لانہ یرید شراء مجموعۃ من الاشیاء ، فصار کانہ اشتری جملۃ ، فانتقص الثمن من اجل ذلک ، لا لانہ قدم قرضا ، علی ان ھذا المبلغ دفعۃ تحت الحساب ، وانہ ، ولو کان قرضا فی الاصطلاح الفقھی ، فان المقصود فی الاستجرار لیس اقراضا ، وانما مقصود المشتری تفریغ ذمتہ لئلا یحتاج الی نقد الثمن کل مرۃ۔
 ( بحوث فی قضایا فقھیۃ معاصرۃ ، ج 1 ، ص  69 )
وتبین بھذا ان الاستجرار بمبلغ مقدم جائز مثل الاستجرار بثمن مؤخر، ویکون المبلغ قرضا عند البائع الی ان یقع البیع عند الاخذ ، فتجری مقاصۃ القرض بثمن المبیع ۔ والمبلغ مضمون علی البائع ۔
الموسوعة الفقهية الكويتية (9/ 43)
 - الصورة الأولى: أن يأخذ الإنسان من البياع ما يحتاج إليه شيئا فشيئا مما يستهلك عادة، كالخبز والملح والزيت والعدس ونحوها، مع جهالة الثمن وقت الأخذ، ثم يشتريها بعد استهلاكها.
فالأصل عدم انعقاد هذا البيع؛ لأن المبيع معدوم وقت الشراء، ومن شرائط المعقود عليه أن يكون موجودا، لكنهم تسامحوا في هذا البيع وأخرجوه عن هذه القاعدة (اشتراط وجود المبيع) وأجازوا بيع المعدوم هنا استحسانا، وذلك كما في البحر الرائق والقنية.
وقال بعض الحنفية: ليس هذا بيع معدوم،إنما هو من باب ضمان المتلفات بإذن مالكها عرفا، تسهيلا للأمر ودفعا للحرج، كما هو العادة. ولم يرتض الحموي وغيره هذا المعنى.
وقال ابن عابدين: إن المسألة استحسان، ويمكن تخريجها على قرض الأعيان، ويكون ضمانها بالثمن استحسانا، كحل الانتفاع في الأشياء القيمية؛ لأن قرضها فاسد لا يحل الانتفاع به وإن ملكت بالقبض.

عبدالدیان اعوان

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

28 رجب 1442

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبدالدیان اعوان بن عبد الرزاق

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب