72519 | طلاق کے احکام | طلاق کے متفرق مسائل |
سوال
سوال : شوہر کا بیان:
میں امجد علی ولد مقصود علی کی شادی کو 8 سے 9 ماہ ہوئے ہیں،اور پہلی مرتبہ میں نے اپنی بیوی کو بولا کہ" اگر میری امی تم کو کہیں پر لے کر جانا چاہیں تو تم کو میری اجازت کی ضرورت نہیں ہے،تم میری طرف سے آزاد ہو،کہیں بھی آ جاسکتی ہو"،اور پھر میری بیوی میرے گھر میں ان 8/9 مہینے میں ایک سے 2 ماہ رہی ہوگی،باقی اپنی امی ابو کے گھر رہی ،اس کی اس وجہ سے تنگ آکر میں نے اپنی بیوی کو دوسری مرتبہ بولا کہ" تم میری طرف سے آزاد ہو،جب چاہے تم میرے گھر آجاؤ اور جب چاہیے امی ابو کے گھر چلی جاؤ، میری تم پر کوئی پابندی نہیں ہے" اور تیسری مرتبہ جب ہماری آپس میں لڑائی ہوئی تو اس وقت میں نے ان کو بولا جب میری اجازت کے بغیر امی ابو کےپاس چلی جارہی تھی تو اس وقت میں نے ان کو بولا کہ" تم میری طرف سے آزاد ہو ،جب دل کرے تم آؤ اور جب دل کرے چلی جاؤ"۔لیکن ان 3دفعہ 3ٹائم میں میری ایک دفعہ کی نیت نہیں تھی ان کو چھوڑنے کی ،اور نہ ہی چھوڑناچاہتاہوں۔لیکن میری بیوی بولتی ہے طلاق ہوگئی ہے،لیکن میری کوئی نیت نہیں ہے۔
اہلیہ کا بیان:
سب سے پہلی والی لڑائی جب سسرال کے گھر میں تھی،ان کی ماں ،بہن میں بحث چل رہی تھی میرے حوالے سے،اس دن مجھے انہوں نے میکے چھوڑنے آنا تھا اور ان کے گھر میں ماحول گرم تھا اور یہ بھی غصہ کی حالت میں مجھے اپنے والدین کے گھر چھوڑنے آرہے تھے،تو انہوں نے مجھے گاڑی میں یہ الفاظ بولے،اس دن تاریخ30اکتوبر 2020تھی،تو انہوں نے پہلی دفعہ یہ الفاظ اداکیے اور یہ مجھے غصہ میں باتیں سنارہے تھے اور اسی دوران انہوں نے کہا" تم میری طرف سے آزاد ہوتم اپنے والدین کے گھر ساری زندگی گزاردو اور میں اپنے والدین کے ساتھ زندگی گزار دوں گا"۔پھر یہ الفاظ انہوں نے بولے جب ہماری آپس میں کسی بات پر لڑائی ہورہی تھی اور یہ غصہ میں تھے تو میں اپنے والدین کی طرف جانے لگی تو انہوں نے مجھے مخاطب کرکے کہا :"سنو ایک بات اچھی طرح سن لو! تم میری طرف سے آزاد ہو، میں تمہیں کبھی لینے نہیں آؤں گا"۔
یہ دوسری بار اس الفاظ کو انہوں نے 6دسمبر2020 میں ادا کیے۔پھر تیسری بار جب مجھے یہ اپنے والدین کے گھر
چھوڑنے آئے تو اس دن بھی انہوں نے میرے والدین ،بھائی کے سامنے کہا کہ" تم اچھی طرح سوچ لینا کہ اس ماحول میں رہوگی ،تم کو اجازت ہے تم جو بھی فیصلہ کرو گی مجھے وہ قبول ہوگا،مجھے رشتے کو گھسیٹنا اچھا نہیں لگتا ،تمہارا جو بھی فیصلہ ہوگا مجھے قبول ہوگا"،پھر جب میں نے انہیں کہاکہ میں اس ماحول میں نہیں رہ سکتی، مجھے کرائے کا گھر دیں، تو انہویں نے منع کردیا اور مجھے فون پر کہاکہ" آج سے ابھی سے میں تم سے بیوی کی حیثیت سے بات نہیں کررہا ہوں "پھر انہوں نے مجھے والدین ،بھائی کے سامنے کہا کہ" میں تمہیں ایک طلاق دیتاہوں"۔جب انہوں نے تیسری بار طلاق کا لفظ کہا اس دن تاریخ 3 مارچ 2021 تھی ۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
طلاق کے الفاظ کے بارے میں میاں بیوی کااختلاف ہے،ایسی صورت میں بیوی کے ذمہ گواہ لاناضروری ہے،اگر وہ دو مرد یا ایک مرد دوعورتیں بطورگواہ پیش کرتی ہے،تو 30اکتوبر کو کہے گئے الفاظ سے ایک طلاق بائن واقع ہوجائے گی۔3 مارچ تک اگر ان کی عدت گزر چکی ہوتو پھر مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی،اگر عدت نہیں گزری تھی،تو3مارچ کو کہے گئے الفاظ سے ایک طلاق رجعی مزید واقع ہوجائے گی۔
اب عدت کے اندر یا عدت کےبعدنئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنا ضروری ہے،نیز دوبارہ نکاح کے بعد شوہر کے پاس پہلی صورت میں دو طلاقوں اور دوسری صورت میں فقط ایک طلاق کا اختیار ہوگا۔
اگر بیوی کے پاس گواہ نہیں ہیں،تو شوہر کی بات قسم کے ساتھ معتبر ہوگی،اور طلاق واقع نہیں ہوگی۔تاہم اس صورت میں بھی اگر خاتون کو اپنے سنے ہوئے الفاظ پر پورا یقین ہے ،تو شوہرکے ساتھ ازدواجی تعلق قائم رکھنا جائز نہیں ہوگا۔
بہتر یہ ہے کہ اگر میاں بیوی ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو نیا نکاح کرلیں،اور اگر ساتھ نہیں رہنا چاہتے ہیں تو شوہر بیوی کو طلاق دے کر آزاد کردے۔
حوالہ جات
وفی الدر المختار(3/ 356):
( فإن اختلفا في وجود الشرط ) ۔۔۔ ( فالقول له مع اليمين ) لإنكاره الطلاق۔۔۔ ( إلا إذا برهنت )۔
قوله: ( إلا إذا برهنت ) وكذا لو برهن غيرها۔
"البحر الرائق شرح كنز الدقائق(3/ 325):
قوله:( سرحتك فارقتك)، وجعلهما الشافعي من الصريح ؛لورودهما في القرآن للطلاق كثيرا
.قلنا المعتبر تعارفهما في العرف العام في الطلاق ؛لاستعمالهما شرعا مرادا هو بهما ,كذا في فتح
القدير، وفي الكافي. ولنا الصريح ما لا يستعمل في غير النساء ،وهم يقولون: سرحت إبلي وفارقت غريمي ،ومشايخ خوارزم من المتقدمين ومن المتأخرين كانوا يفتون بأن لفظ التسريح بمنزلة الصريح يقع به طلاق رجعي بدون النية .كذا في المجتنى.
قال الشامی رحمہ اللہ(3/ 299):
فإن” سرحتك“ كناية، لكنه في عرف الفرس غلب استعماله في الصريح فإذا قال " رهاكردم " أي سرحتك يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضا، وما ذاك إلا لأنه غلب في عرف الفرس استعماله في الطلاق وقد مر أن الصريح ما لم يستعمل إلا في الطلاق من أي لغة كانت… زاد في البحر: الطلاق لك أو عليك، أنت طال بحذف الآخر، لست لي بامرأة وما أنا لك بزوج، أعرتك طلاقك، ويصير الأمر بيدها على ما في المحيط اهـ ففي الكل يقع بالنية رجعي كما في الفتح
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (3/ 306):
(الصريح يلحق الصريح و) يلحق (البائن) بشرط العدة (والبائن يلحق الصريح) الصريح ما لا يحتاج إلى نية بائنا كان الواقع به أو رجعيا فتح،۔۔۔ (لا) يلحق البائن (البائن)
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (3/ 308):
(قوله لا يلحق البائن البائن) المراد بالبائن الذي لا يلحق هو ما كان بلفظ الكناية لأنه هو الذي ليس ظاهرا في إنشاء الطلاق كذا في الفتح، وقيد بقوله الذي لا يلحق إشارة إلى أن البائن الموقع أولا أعم من كونه بلفظ الكناية أو بلفظ الصريح المفيد للبينونة كالطلاق على مال، وحينئذ فيكون المراد بالصريح في الجملة الثانية أعني قولهم فالبائن يلحق الصريح لا البائن هو الصريح الرجعي فقط دون الصريح البائن، وبه ظهر أن ما نقله الشارح أولا عن الفتح من أن الصريح ما لا يحتاج إلى نية بائنا كان الواقع به أو رجعيا خاص بالصريح في الجملة الأولى: أعني قولهم الصريح يلحق الصريح والبائن كما دل عليه كلام الفتح الذي ذكرناه هنا، ويدل عليه أيضا أمور:منها ما أطبقوا عليه من تعليلهم عدم لحوق البائن البائن بإمكان جعل الثاني خبرا عن الأول؛ ولا يخفى أن ذلك شامل لما إذا كان البائن الأول بلفظ الكناية أو بلفظ الصريح.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (3/ 187):
فإن كانا حرين فالحكم الأصلي لما دون الثلاث من الواحدة البائنة، والثنتين البائنتين هو نقصان عدد الطلاق، وزوال الملك أيضا حتى لا يحل له وطؤها إلا بنكاح جديد… ولا يحرم حرمة غليظة حتى يجوز له نكاحها من غير أن تتزوج بزوج آخر؛ لأن ما دون الثلاثة - وإن كان بائنا - فإنه يوجب زوال الملك لا زوال حل المحلية
سید نوید اللہ
دارالافتاء،جامعۃ الرشید
30/رجب1442ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سید نوید اللہ | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |