021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیوی کو” میں اپنا کام خود کروں گا بس آپ اپنا کام کرنا ” کہنے سے طلاق کا حکم
72652طلاق کے احکامالفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

ایک دن میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ فلاں کام کرنا، اس نے اس وقت وہ کام نہیں کیا جس پر مجھے بہت غصہ آیا، تو ایک دن تک میں نے اپنی بیوی سے بات نہیں کی، اگلے دن وہ میرے پاس آئی اور معافی مانگی، میں نے کہا اس شرط پر معاف کروں گا کہ آئندہ جو بھی کام آپ نے خود کیا تو ٹھیک ہے لیکن اگر آپ نے نہیں کیا تو میں خود وہ کام کروں گا آپ کو کسی کام کا نہیں بولوں گا، لیکن وہ اس بات پر راضی نہیں ہوئی، بولنے لگی کہ آپ نے ہر کام کا مجھے بتانا ہوگا، میں نے بولا میں نہیں بتاؤں گا،اسی طرح ہمارے درمیان باتیں ہورہی تھی میں نے کہا کہ،، میں اپنا کام خود کروں گا بس آپ اپنا کام کرنا،، بعد میں مجھے خیال آیا کہ مذکورہ جملے سے نکاح پر کوئی اثر تو نہیں پڑا.

واضح رہے کہ مذکورہ جملے سے میراکوئی بھی ارادہ اور نیت نہیں تھی بس باتوں باتوں میں ایک بات زبان پر آئی تو بول دیا، اور نہ اس کے علاوہ کوئی دوسری بات کہی ہے.

مفتی صاحب یہ جملہ جو میں نے لکھا ہے کہ،،  میں اپنا کام خود کروں گا بس آپ اپنا کام کرنا،، یہ اپنے غالب گمان کے مطابق لکھا ہے، ورنہ یقینی طور پر مجھے الفاظ یاد نہیں ہے،اور نہ ہی بیوی کو یاد ہے البتہ اسی کے لگ بھگ الفاظ زبان سے ادا ہوگئے تھے.

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

      صورتِ  مسئولہ ميں  آپ نے جو الفاظ  طلاق كی نیت كے بغیر كہے ہیں ، ان سے آپ كی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، لہذا آپ کا نکاح بدستور قائم ہے،پریشانی کی کوئی بات نہیں ۔

     باقی طلاق واقع ہونے  کے حکم سےمتعلق آپ کی راہ نمائی کے لیے  تمہید کے طور پر  چند باتیں درج ذیل ہیں  :

١۔ بیوی پر طلاق واقع ہونے کے لیے طلاق کے الفاظ کا ہونا ضروری ہے، زبان سے  اگر طلاق کے الفاظ نہ کہے اور محض دل میں خیال یا وسوسہ آجائے  تو اس سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔

۲۔کسی بھی لفظ سے طلاق کی نیت کرنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی ہے، بلکہ اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ لفظ طلاق کی صلاحیت رکھتا ہو، اور اس میں طلاق کا احتمال موجود ہو۔ ایسا لفظ جو طلاق کا احتمال  ہی نہیں رکھتا  اس سے اگر طلاق دینے کی نیت کی بھی جائے تب بھی  کوئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔

۳۔طلاق کے الفاظ دو قسم کے ہوتے ہیں: (1) صریح (2) کنایہ 

صریح :  سے مراد وہ لفظ ہے جس کاعمومی استعمال طلاق ہی کے لیے ہو،جیسے لفظ طلاق ہے،یہ طلاق کے وقوع میں صریح ہے، اگر کسی نے بیوی کو صریح الفاظ کے ساتھ طلاق دے دی تو خواہ وہ الفاظ  کسی بھی مقصد  (ڈرانے، دھمکانے، مذاق وغیرہ) کے لیے  کہے ہوں، ان سے بغیر نیت کے طلاق واقع ہوجاتی ہے۔

کنایہ :   سے مراد  وہ  الفاظ ہیں جو اصلاً طلاق کے لیے وضع نہ ہوں، بلکہ ان میں طلاق اور غیر طلاق دونوں کا احتمال ہو، ان الفاظِ کنائی سے طلاق واقع ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ طلاق کا معنی مراد لیا جائے،  بعض الفاظ میں یہ معنی نیت ہی کے ذریعے مراد لیا جاتا ہے اور بسا اوقات مذاکرۂ  طلاق، دلالتِ حال، عرف اور الفاظِ کنائی کے صریح بن جانے کی وجہ سے بغیر نیت کے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے،  الفاظِ کنائی بہت سارے ہیں، یہاں سب کا احاطہ و شمار ممکن نہیں ہے، اور کنایہ الفاظ سے جو طلاق واقع ہوتی ہے وہ طلاق بائن ہوتی ہے۔

حوالہ جات
اللباب في شرح الكتاب میں ہے:
والكنايات ثلاثة أقسام: قسم منها يصلح جوابا ولا يصلح رداً ولا شتما، وهي ثلاثة ألفاظ: أمرك بيدك، اختاري، اعتدي، ومرادفها، وقسم يصلح جوابًا وشتمًا ولايصلح رداً، وهي خمسة ألفاظ: خلية، برية، بتة، بائن، حرام، ومرادفها، وقسم يصلح جوابًا ورداً ولايصلح سباً وشتما؛ وهي خمسة أيضا: اخرجي، اذهبي، اغربي، قومي، تقنعي، ومرادفها، ففي حالة الرضا لا يقع الطلاق بشيء منها إلا بالنية، والقول قوله في عدم النية، وفي حالة مذاكرة الطلاق يقع بكل لفظ لا يصلح للرد وهو القسم الأول والثاني، وفي حالة الغضب لا يقع بكل لفظ يصلح للسب والرد وهو القسم الثاني والثالث، ويقع بكل لفظ لا يصلح لهما بل للجواب فقط وهو القسم الأول. كما في الإيضاح                ."    

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

 دارالافتاء جامعۃ الرشید

2/8/1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب