72814 | جائز و ناجائزامور کا بیان | پردے کے احکام |
سوال
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اِس بارے میں کہ میرا بھائی ٹیوشن پڑھاتا ہے۔ اُن میں سے بعض بڑی لڑکیوں کی بھی ٹیوشن ملتی ہے۔ کیا میرے بھائی کے لیے اُن بڑی لڑکیوں کو ٹیوشن پڑھانا جائز ہے؟ اور اُس پر اگر وہ فیس وصول کرے گا، تو وہ حلال ہوگی یا حرام؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
لڑکیوں کو پڑھانے کے دوران اکثر اُن کے چہرے پر نظر پڑتی ہے، بسا اوقات خلوت بھی پیش آجاتی ہے اور دیگر کئی مفاسد کا خطرہ ہوتا ہے، لہذا دس سال سے بڑی عمر کی لڑکیوں کو ٹیوشن پڑھانا جائز نہیں۔ بڑی عمر کی لڑکیاں مرد کے بجائے کسی خاتون سے ہی ٹیوشن پڑھیں۔
البتہ چونکہ ٹیوشن پڑھانا فی نفسہ جائز کام ہے، لہذا بڑی لڑکیوں کو پڑھانے پر جو تنخواہ لی گئی ہو، وہ بہرحال حرام نہیں۔
حوالہ جات
قال العلامۃ الحصکفي رحمہ اللہ تعالی: (فإن خاف الشهوة) أو شك (امتنع نظره إلى وجهها) فحل النظر مقيد بعدم الشهوة، وإلا فحرام. وهذا في زمانهم، وأما في زماننا، فمنع من الشابة. قهستاني وغيره. (الدر المختار مع رد المحتار: 6/370)
قال العلامۃ ابن نجیم رحمہ اللہ تعالی: قال مشايخنا: تمنع المرأة الشابة من كشف وجهها بين الرجال في زماننا للفتنة. (البحر الرائق: 1/284)
قال العلامۃ الحصکفي رحمہ اللہ تعالی: وفي الأشباه: الخلوة بالأجنبية حرام.(الدر المختار مع رد المحتار: 6/368)
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی: قوله: (حرام). قال في القنية: مكروهة كراهة تحريم.(رد المحتار: 6/368)
قال جماعۃ من العلماء رحمھم اللہ تعالی: ويجوز الاستئجار على تعليم اللغة والأدب بالإجماع. كذا في السراج الوهاج. (الفتاوی الھندیۃ: 4/448)
وقال أیضا: ولو استأجر لتعليم ولده الكتابة أو النجوم أو الطب أو التعبير جاز بالاتفاق. وفي فتاوى الفضلي: ولو استأجر المعلم على حفظ الصبيان أو تعليم الخط أو الهجاء جاز.(الفتاوی الھندیۃ: 4/448)
صفی ارشد
دارالافتاء، جامعۃ الرشید، کراچی
2/ شعبان/1442
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | صفی ارشد ولد ارشد ممتاز فاروقی | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |