03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
روزے کے دوران استنجاء میں مبالغہ نہ کرنے کی وضاحت
73206پاکی کے مسائلاستنجاء کا بیان

سوال

روزے کے مسائل کا انسائیکلوپیڈیا نامی کتاب میں ایک مسئلہ لکھا ہے کہ،،استنجاء کرنے میں مبالغہ کرنے سے اگر موضع حقنہ تک پانی پہنچ گیا تو روزہ فاسد ہوجائے گا،قضاء لازم ہوگی کفارہ نہیں. (صفحہ نمبر31) اسی کتاب میں اگر چہ کچھ آگے یہ بھی لکھا ہے کہ روزہ دار کو استنجاء کرنے کے بعد  خاص مقام کو کسی چیز سے اچھی طرح خشک کرنا ضروری نہیں، استنجاء سے روزے پر اثر نہیں پڑتا، البتہ اگر موضع حقنہ تک پانی پہنچ گیا تو روزہ فاسد ہوجائے گا ،مگر استنجاء میں ایسا نہیں ہوتا، اب مسئلہ یہ پوچھنا ہے کہ:

1....استنجاء کرنے میں مبالغہ کرنے سے کیا مراد ہے؟ اگر کوئی شخص صفائی کی غرض سے خاص مقام کو بار بار اہتمام کے ساتھ دھوئے تو کیا وہ بھی مبالغہ میں آجائے گا؟

2....موضع حقنہ سے کیا مراد ہے؟ اور یہ کس طرح پتہ چلتا ہے کہ ابھی موضع حقنہ تک پانی پہنچ گیا ؟

3....اگر کوئی شخص خاص مقام کی اس لیے خوب صفائی نہ کرے کہ مبالغہ نہ ہوجائے تو گندگی باقی رہنے کا اندیشہ رہتا ہے، اور اگر خوب صفائی کرلے تو پانی اندر جانے کا اندیشہ ہوتا ہے(البتہ یقین نہیں ہوتا) تو ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

1۔ روزہ کی حالت میں استنجاء کرنے میں مبالغہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ  پانی کو مقعد کے اندر پہنچانے کی کوشش نہ کی جائے، کیونکہ پانی کے مقعد کے  اندر چلے جانے سے روزہ ٹوٹنے کا خدشہ ہوتا ہے، باقی نجاست کی جگہ کے ظاہری حصہ کو باربار دھونے میں کوئی حرج نہیں۔

2۔ موضع حقنہ وہ جگہ ہے جہاں پر پچکاری کے ذریعہ دواء اندر پہنچائی جاتی ہے اور یہ فضلات کے اخراج کی نالی کا آخری حصہ ہے جہاں سے بڑی آنت شروع ہوتی ہے، وہاں تک اگر دواء پہنچا دی جائے تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے، خواہ دوا سیال ہو یا جامد۔   (كذا في لمسائل المہمة فیما ابتلت بہ العامة للمفتی محمد جعفرالرحمانی )

     رہی یہ بات کہ یہ جگہ کہاں تک ہوتی ہے تو اس سلسلے میں امداد الاحکام میں پانچ چھ انگلیوں کی مقدار بتائی گئی ہے، دیکھیے عبارت:

"ہم کو طبیبِ حاذق کے قول سے جن پر ہم کو اعتماد اور وثوق ہے، معلوم ہوا ہے کہ حالتِ احتقان میں رأسِ محقنہ پانچ چھ انگل اندر پہنچایا جاتا ہے، تب احتقان ہو سکتا ہے، اس سے کم میں نہیں۔"(امدادالاحكام:129/2)

     اور عام طورپر استنجاء کے دوران پانی موضعِ حقنہ تک نہیں پہنچتا، نیزعام آدمی کو اس بات کا علم ہونا مشکل ہے، فقہائے کرام رحمہم اللہ نے صرف احتیاط کا پہلو مدِ نظر رکھتے ہوئے فرمایا کہ استنجاء کرتے ہوئے مبالغہ سے کام نہ لیا جائے، بلکہ صرف نجاست کی جگہ کے ظاہری حصہ کو دھونے پر اکتفاء کیا جائے۔

3۔ وہم میں نہیں پڑنا چاہیے، جب تین مرتبہ اچھی طرح نجاست کی جگہ کو دھو لیا جائے تو پھر خوامخواہ ناپاکی کا گمان درست نہیں، بلکہ جسم کو پاک سمجھ کر مزید پانی بہانے سے اجتناب کرنا چاہیے، نیز شرعاً مقعد کے صرف ظاہری حصہ کو دھونا واجب ہے، اندرونی حصہ کو دھونے کا شریعت نے مکلف نہیں بنایا، کیونکہ اس میں حرج لازم آتا ہے۔   

حوالہ جات

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (2/ 397) دار الفكر-بيروت:

ولو بالغ في الاستنجاء حتى بلغ موضع الحقنة فسد وهذا قلما يكون ولو كان فيورث داء عظيما۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (2/ 397) دار الفكر-بيروت:

(قوله: حتى بلغ موضع الحقنة) هي دواء يجعل في خريطة من أدم يقال لها المحقنة مغرب ثم في بعض النسخ المحقنة بالميم وهي أولى قال في الفتح: والحد الذي يتعلق بالوصول إليه الفساد قدر المحقنة اهـ. أي قدر ما يصل إليه رأس المحقنة التي هي آلة الاحتقان وعلى الأول فالمراد الموضع الذي ينصب منه الدواء إلى الأمعاء۔

فتح القدير للكمال ابن الهمام (1/ 185) دار الفكر-بيروت:

في عينه رمد يسيل دمعها يؤمر بالوضوء لكل وقت لاحتمال كونه صديدا. وأقول: هذا التعليليقتضي أنه أمر استحباب، فإن الشك والاحتمال في كونه ناقضا لا يوجب الحكم بالنقض إذا اليقين لا يزول بالشك والله أعلم. نعم إذا علم من طريق غلبة الظن بإخبار الأطباء أو علامات تغلب ظن المبتلى يجب.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

24/شوال المکرم 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب