021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
جبر و اکراہ کی تعریف اور تحریراً طلاق میں اس کا حکم
73227طلاق کے احکاممدہوشی اور جبر کی حالت میں طلاق دینے کا حکم

سوال

ایک شخص نے اپنی دوسری بیوی کو دو سال پہلے( جولائی 2019) میں تحریری طور پر تین طلاقیں دیں،اور میونسپل کارپوریشن کے سول جج کے سامنے بھی طلاق دینے کا اقرار کیا جس کے بعد عدالت نے طلاق کا سرٹیفیکیٹ بھی جاری کر دیا۔

اب( اپریل 2021میں) تقریبا دو سال کے بعد وہ شخص کہتا ہے کہ میرے ساتھ جبر و اکراہ کیا گیا تھا اور  جو تین طلاقیں مجھ سے تحریراً لکھوائی گئیں تھیں وہ تحریر بھی میری نہیں تھی اور میں نے زبان سے طلاق کے الفاظ بھی ادا نہیں کیے تھے،جبکہ اس پورے دو سال کے عرصے میں وہ اس تحریر اور طلاق کا اقرار کرتا رہاہے۔ اس کی پہلی بیوی (جس کو اس اثناء میں کینسر کا مرض بھی لاحق ہوا)کے مطابق وہ گواہ ہے کہ اس نے ایک سے زائد مواقع پر  زبان سے طلاق کے الفاظ دوسری بیوی کےلیے  کہے(18 مرتبہ دو سال میں مختلف مجالس میں تین تین کر کے)اب مفتیان کرام سے اس مسئلے میں مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں۔

1۔ جبر و اکراہ کی عام فہم تعریف کیا ہوگی اور اس کی حدود کیا ہوں گی؟

2۔ کیا جبر واکراہ کسی خاص وقت تک محدود ہے کہ جبر ختم تو حکم بھی ختم ؟ اگر بالفرض اس شخص سے تحریر جبراً (جبر تام یا ناقص) لکھوائی گئی تھی تو کیا اس مجلس کے فورا بعد جس میں جبر ہوا اسے رجوع کرکے اعلانیہ نہیں کہنا چاہیئے تھا کہ یہ تحریر جبراً لی گئی ہے، میں براءت کا اعلان کرتا ہوں اور اپنے اوپر جبر کی قانونی چارہ جوئی کرتا؟

3۔ کیا پہلی بیوی(عورت) کی دھمکیاں (مثلاً

·       میں جان دے دوں گی۔

·       تمھیں نوکری سے نکلوا دوں گی۔

·       تمھارے بچے سے الگ کروا دوں گی۔

جب کہ وہ ان میں سے کسی ایک پر بھی قدرت نہیں رکھتی ،کینسر کی مریضہ ہے) شرعاً کسی بھی قسم کے جبر و اکراہ میں شمار ہوتی ہیں یا ایسے دباؤ میں جسے برداشت نہ کیا جاسکے؟

4۔ اگر اس شخص نے بالفرض جبر و اکراہ میں طلاق دی تو اس اقرار کی کیا حیثیت ہے جس پر وہ دو سال تک قائم رہا؟کیا طلاق کا اقرار طلاق کے حکم میں نہیں ہوگا؟

5۔ سول جج کے سامنے پیشی پر(مارچ 2021)جبر و اکراہ کا کوئی ذکر نہیں کیا جس پر طلاق کا سرٹیفیکیٹ جاری ہوا ۔اس قانونی کارروائی کی کیا شرعی حیثیت ہو گی؟

تمام صورت حال میں ان طلاقوں سے دوسری بیوی مغلظہ ہوگی یا بائن اور دوسرے نکاح کی کیا صورت ہو گی؟

اضافہ از مجیب: یہ سوال جامعہ سے جاری ہونے والے ایک فتوی (فتوی نمبر 60/73077) سے متعلق ہے اور فریق ثانی کی جانب سے ہے۔ مذکورہ فتوی جبراً طلاق سے متعلق تھا جس میں اصولی جواب دیا گیا تھا کہ " جبری طلاق اگر زبان سے نہ دی جائے، محض لکھ کر یا طلاق نامے پر دستخط کر کے دی جائے تو واقع نہیں ہوتی بشرطیکہ یہ جبر اور اکراہ اس قدر ہو کہ طلاق نامے پر دستخط نہ کرنے کی صورت میں نقصان اور سخت پریشانی کا اندیشہ ہو ،اس جبر کے بغیر یہ شخص اس طلاق نامے پر دستخط نہ کرنا چاہتا ہو اور اس کی وجہ سے دستخط کرنے والے کی رضامندی ختم ہو چکی ہو ۔ اگر جبر اس قدر نہ ہو اور طلاق نہ دینے کی صورت میں دستخط کرنے والا اس کے نتائج بآسانی برداشت کر سکتا ہو تو طلاق واقع ہو جائے گی۔ نیز اگر کسی سے طلاق کا جبراً اقرار کروایا جائے (اور جبر مذکورہ بالا حد تک ہو)  تو یہ اقرار درست نہیں ہوتا اور اس سے بھی طلاق واقع نہیں ہوتی۔"

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں مذکور جزئیات کے جواب سے پہلے یہ بات بطور تمہید سمجھ لینی چاہیے کہ دار الافتاء سے جو جواب تحریری یا زبانی دیا جاتا ہے وہ سوال کے مطابق ہوتا ہے۔ سوال کے درست یا غلط ہونے کی صورت میں جواب کے صحیح یا غلط ہونے کی ذمہ داری سائل پر ہوتی ہے۔ نیز اگر سوال مطلق ہو اور کوئی ایک صورت واضح نہ کی گئی ہو جبکہ جواب میں ایک سے زیادہ صورتوں میں الگ الگ جواب کا امکان ہو  اور تنقیح سے بھی صورت حال واضح نہ ہو، تو جواب میں اصول بتا دیا جاتا ہے جس کے اپنی صورت حال پر اطلاق کی ذمہ داری بھی سائل کی ہوتی ہے۔

دوسری بات یہ کہ طلاق کا معاملہ شرعاً انتہائی نازک اور حلال و حرام کا معاملہ ہے۔ اس میں کسی دارالافتاء سے فتوی لے کر اس کا اطلاق اپنی خواہش کے مطابق کرنے  سے کوئی شخص عند اللہ گناہ سے بچ نہیں سکتا۔ لہذا ایسے کسی فعل سے اجتناب کرنا لازمی ہے۔

اس تمہید کے بعد آپ کے سوال میں مذکور جزئیات کے جوابات بالترتیب یوں ہیں:

1.     اکراہ کی عام فہم تعریف یہ ہے کہ کسی شخص کو غیر معمولی نتائج کی دھمکی دے کر کسی  کام پر اس طرح مجبور کیا جائے کہ دھمکی دینے والا اس دھمکی کو واقع کرنے پر قادر بھی ہو اور جس شخص کو دھمکی دی جائے اسے بات نہ ماننے کی صورت میں اس غیر معمولی صورت حال سے دوچار ہونےکا غالب گمان یا یقین بھی ہو۔ وہ یہ کام نہ کرنا چاہتا ہو لیکن دھمکی دینے والے شخص کو اپنی دھمکی پر قادر سمجھ کر کر لے۔ اس  کی دو قسمیں ہیں:

‌أ.      اکراہ تام: جس میں جبر کرنے والا کسی ایسی چیز کی دھمکی دے جس سے ڈر کر انسان طبعی طور پر کام کرنے پر مجبور ہو جائے جیسے قتل، عضو کاٹنے یا اس طرح مارنے کی دھمکی دینا جس سے کوئی عضو ضائع ہو جائے۔

‌ب. اکراہ ناقص: جس میں دھمکی مذکورہ بالا صورت سے کم درجے کی ہو لیکن اس قدر  غیر معمولی ہو کہ انسان اپنی رضامندی کے بغیر کوئی کام کرنے پر خود کو مجبور سمجھے اور کام نہ کرنے پر نتائج کو اپنی برداشت سے باہر سمجھے۔ اس قسم کے اکراہ کے تحقق کے لیے جان سے مارنے یا عضو تلف کرنے کی دھمکی دینا ضروری نہیں، البتہ یہ ضروری ہے کہ ایسے معمولی نتیجے کی دھمکی نہ ہو جسے عموماً برداشت کے قابل سمجھا جاتا ہو۔

اکراہ کے ثابت ہونے کے لیے چار شرائط ہیں:

‌أ.      مجبور کرنے والا اس کام کی قدرت رکھتا ہو جس پر وہ مجبور کر رہا ہو۔ یہ قدرت ذاتی طور پر بھی ہو سکتی ہے اور کسی کارندے یا تعلق دار کی مدد سے بھی۔

‌ب. جسے مجبور کیا جائے اسے کم از کم غالب گمان کے درجے میں یہ خوف ہو کہ کام نہ کرنے پر فوری نتیجہ  دھمکی کے مطابق نکل سکتا ہے۔

‌ج.    دھمکی کسی ایسی چیز کی ہو جس سے جان جانے ، عضو ضائع ہونے کا خطرہ ہو، یا کم سے کم ایسی غیر معمولی صورت حال سے دوچار کرنے کی ہو جس سے عموماً مجبور کیے جانے والے اس جیسے شخص کی رضامندی ختم ہو جاتی ہو۔

‌د.       جس چیز پر مجبور کیا جائے اس سے مجبور ہونے والا شخص اس اکراہ سے پہلے رکا ہوا ہو اور وہ کام نہ کرنا چاہتا ہو۔

یہ چاروں شرائط پائی جائیں تو اکراہ درست ہوگا اور اس کے احکام لاگو ہوں گے۔

2.     جو چیز  اکراہ کی صورت میں ثابت نہیں ہوتی اس کا حکم ابتداءً ہی لاگو نہیں ہوتا لہذا وقت گزرنے سے بھی وہ لاگو نہیں ہوتا۔ اگر سوال میں مذکور صورت میں اس شخص سے طلاق کی یہ تحریر جبراً لکھوائی گئی تھی (اور اکراہ بھی مذکورہ شرائط کے مطابق تھا)  تو طلاق ابتداءً ہی واقع نہیں ہوئی، لہذا اکراہ کے ختم ہونے کے بعد اس پر کسی قسم کا اعلانِ براءت کرنا شرعاً لازم نہیں تھا۔

3.     اگر پہلی بیوی مذکورہ دھمکیوں پر قادر تھی اور یہ شخص یہ سمجھتا تھا کہ اس کی خود کشی ، نوکری سے نکلوانے اور بچوں سے دوری کی صورت میں ایسی پریشانی کا شکار ہو جائے گا جسے یہ برداشت نہیں کر سکے گا تو یہ اکراہ ہے اور اس کی بنا پر تحریراً دی گئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ چونکہ خود کشی کینسر میں کی جا سکتی ہے، نیز باقی دونوں دھمکیوں پر ذاتی طور پر قدرت ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ کسی مددگار کے زریعے بھی قادر ہو سکتی ہے لہذا کینسر کی مریضہ ہونا اس اکراہ کے منافی نہیں ہے۔

4.     اکراہ کے ختم ہونے کے بعد اگر اس شخص نے اس تحریر یا اس تحریر میں مذکور طلاق کا اقرار کیا ہے تو چونکہ اس تحریر سے طلاق واقع نہیں ہوئی تھی لہذا بعد میں بھی واقع نہیں ہوگی۔ تحریر یا تحریر میں موجود الفاظ کے اقرار سے مراد یہ ہے کہ اس کا اقرار اس قسم کا ہو:

‌أ.      "میں نے طلاق نامے یا اس کے حلف نامے پر دستخط کیے ہیں۔"

‌ب. "طلاق نامے میں تین طلاقیں مذکور تھیں اور اس پر میں نے دستخط کیے ہیں۔"

‌ج.    "طلاق نامے میں مذکور عبارت کی رو سے میں طلاق دے چکا ہوں۔"

اس شخص نے مذکورہ بالا جملے یا اس معنی کو ادا کرنے والے جملوں سے اگر اقرار کیا ہے تو طلاق واقع نہیں ہوگی۔

 اور اگر اس نے الگ سے طلاق کا اقرار کیا ہے (یعنی یہ کہا ہے کہ "میں نے اپنی دوسری بیوی کو طلاق دے دی ہے) اور اس کی نسبت اس تحریر کی جانب نہیں کی تو دیکھا جائے گا کہ یہ اقرار سچا تھا یا جھوٹا؟ اگر یہ اقرار سچا تھا تو طلاق واقع ہو گئی، اور اگر یہ اقرار  جھوٹا تھا تو دیانۃً طلاق واقع نہیں ہوئی اور ان کا نکاح باقی ہے، البتہ قضاءً واقع ہو گئی ہے یعنی  اگر دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں قاضی کے سامنے اس کے اقرار پر گواہی دیں یا یہ شخص خود قاضی کے سامنے اقرار کرے  تو طلاق واقع سمجھی جائے گی، نیز اگر اپنی دوسری بیوی کے سامنے بھی اقرار کیا ہے یا اسے کوئی عادل شخص خبر دے تو وہ بھی شرعاً طلاق ہی سمجھے گی۔

5.     اس کا حکم بھی مذکورہ بالا ہے کہ اگر اس شخص نے اس تحریر یا اس تحریر میں مذکور طلاق کا اقرار کیا ہے تو چونکہ اس تحریر سے طلاق واقع نہیں ہوئی تھی لہذا بعد میں بھی واقع نہیں ہوگی۔  اور اگر جج کے سامنے الگ سے طلاق کا اقرار کیا ہے تو اگر اقرار سچا ہے تو طلاق دیانۃً اور قضاءً واقع سمجھی جائے گی، اور اگر اقرار جھوٹا ہے تو صرف قضاءً  واقع سمجھی جائے گی ۔ اگر اس نے اپنی دوسری بیوی کے سامنے بھی اقرار کیا ہے یا اسے کوئی عادل شخص خبر دے تو وہ بھی شرعاً طلاق ہی سمجھے گی۔

6.     چونکہ صورت حال کے مطابق طلاق ہونے یا نہ ہونے کا جواب مختلف ہو سکتا ہے لہذا درست صورت حال طلاق دینے والے شخص  سے لکھوا کر بھیجی جائے تو اس شق کا درست جواب دیا جا سکتا ہے۔ ورنہ فریقین کسی عالم دین یا مفتی کو حَکَم (ثالث) بنا کر ان کے سامنے اپنے اپنے بیانات پیش کر کے اس تنازعے کو حل کروا لیں، فتوی کے ذریعے فریقین کے درمیان قضاء اور فیصلہ ممکن نہیں البتہ اصولی شرعی حکم بتایا جا سکتا ہے جس کی تفصیل گزشتہ اور موجودہ دونوں فتاوی میں ذکر کر دی گئی ہے۔

حوالہ جات
أما الإكراه في اصطلاح الفقهاء فهو: فعل يفعله المرء بغيره، فينتفي به رضاه، أو يفسد به اختياره.
وعرفه البزدوي بأنه: حمل الغير على أمر يمتنع عنه بتخويف يقدر الحامل على إيقاعه ويصير الغير خائفا به.
(الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ، 6/98، ط: دار السلاسل)
ثم نقل عن البزازية والقنية لو أراد به الخبر عن الماضي كذبا لا يقع ديانة، وإن أشهد قبل ذلك لا يقع قضاء أيضا. اهـ.
(الدر المختار و حاشية ابن عابدين، 3/238، ط: دار الفكر)
رجل أكره بالضرب والحبس على أن يكتب طلاق امرأته فلانة بنت فلان بن فلان فكتب امرأته فلانة بنت فلان بن فلان طالق لا تطلق امرأته كذا في فتاوى قاضي خان.
(الفتاوى الهندية، 1/379، ط: دار الفكر)
وأما بيان أنواع الإكراه فنقول: إنه نوعان: نوع يوجب الإلجاء والاضطرار طبعا كالقتل والقطع والضرب الذي يخاف فيه تلف النفس أو العضو قل الضرب أو كثر۔۔۔ وهذا النوع يسمى إكراها تاما، ونوع لا يوجب الإلجاء والاضطرار وهو الحبس والقيد والضرب الذي لا يخاف منه التلف، وليس فيه تقدير لازم سوى أن يلحقه منه الاغتمام البين من هذه الأشياء أعني الحبس والقيد والضرب، وهذا النوع من الإكراه يسمى إكراها ناقصا.
(بدائع الصنائع، 7/175، ط: دار الكتب العلمية)
(وشرطه) أربعة أمور: (قدرة المكره على إيقاع ما هدد به سلطانا أو لصا) أو نحوه (و) الثاني (خوف المكره) بالفتح (إيقاعه) أي إيقاع ما هدد به (في الحال) بغلبة ظنه ليصير ملجأ (و) الثالث: (كون الشيء المكره به متلفا نفسا أو عضوا أو موجبا غما يعدم الرضا) وهذا أدنى مراتبه وهو يختلف باختلاف الأشخاص فإن الأشراف يغمون بكلام خشن، والأراذل ربما لا يغمون إلا بالضرب المبرح ابن كمال (و) الرابع: (كون المكره ممتنعا عما أكره عليه قبله) إما (لحقه) كبيع ماله (أو لحق) شخص (آخر) كإتلاف مال الغير (أو لحق الشرع) كشرب الخمر والزنا.
(الدر المختار و حاشية ابن عابدين، 6/129، ط: دار الفكر)
قال الحصكفيؒ: " (ويقع طلاق كل زوج بالغ عاقل) ولو تقديرا بدائع، ليدخل السكران (ولو عبدا أو مكرها) فإن طلاقه صحيح لا إقراره بالطلاق."
علق عليه ابن عابدين ؒ: " (قوله لا إقراره بالطلاق) قيد بالطلاق لأن الكلام فيه، وإلا فإقرار المكره بغيره لا يصح أيضا كما لو أقر بعتق أو نكاح أو رجعة أو فيء أو عفو عن دم عمد أو بعبده أنه ابنه أو جاريته أنها أم ولده كما نص عليه الحاكم في الكافي. هذا، وفي البحر أن المراد الإكراه على التلفظ بالطلاق، فلو أكره على أن يكتب طلاق امرأته فكتب لا تطلق لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة ولا حاجة هنا، كذا في الخانية۔۔۔."
(الدر المختار و حاشية ابن عابدين، 3/236، ط: دار الفكر)

محمد اویس پراچہ     

دار الافتاء، جامعۃ الرشید

26/ شوال المکرم 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اویس پراچہ

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے