021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
خلع کا طریقہ واحکام
70697طلاق کے احکامخلع اور اس کے احکام

سوال

اب سے تقریبا ۲ سال قبل میری شادی ہوئی اور میری اب تقریبا ۱ سالہ بچی ہے، اب میری اہلیہ بلا کسی وجہ میکے چلی گئی ہے اور وہیں سے اپنے گھر والوں سے مل کر عدالت میں خلع کا کیس دائر کیا ،عدالت کے بلانے پر میں عدالت حاضر ہوا، جج نے میری اہلیہ سے وجہ دریافت کی کہ آپ کس وجہ سے خلع لینا چاہتی ہیں، تاہم میری اہلیہ کوئی معقول وجہ بتانے سے قاصر رہی اور عدالت نے فیصلہ بتایا کہ اگر آپ خلع لینا چاہتی ہیں تو حق مہر اپنے شوہر کو واپس کردیں ،میری اہلیہ نے کہا کہ میں حق مہر نہیں دونگی اور مجھے اور میری بچی کو تمام اخراجات اور خرچہ میرے شوہر ہی ادا کرینگے تو عدالت نے کہا کہ اگرآپ حق مہر سمیت تمام حقوق چاہتی ہیں تو اپنے شوہر کے ساتھ زندگی گزارنا ہوگی، تاہم میری اہلیہ اور میرے سسرال والے حق واپس کئے بغیر خلع لینے پر بضد ہیں۔ اب سؤال یہ ہے کہ خلع کے شرعا احکامات، شرائط اور طریقہ کار کیا ہیں؟نیز کیا میری اہلیہ کویہ حق حاصل ہے کہ وہ حق مہر غصب کر کے بلا کسی وجہ خلع لے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر میاں بیوی میں کسی طرح نباہ نہ ہوسکے اور مرد طلاق نہ دیتا ہو تو عورت کے لیے جائز ہے کہ کچھ مال دے کر یا اپنا مہر دے کر یا معاف کرکےمرد سے خلاصی حاصل کرے، جس کا طریقہ یہ ہے کہ عورت مرد سے کہے کہ اتنا روپیہ لے کر مجھے چھوڑ دو یا یوں کہے کہ جو میرا مہر تیرے ذمہ ہے، اس کے عوض مجھے چھوڑ دو، اوراس کے جواب میں اسی جگہ بلا کسی تعطل کےمرد کہے کہ میں نے چھوڑ دیا تو اس سے عورت پر ایک طلاق بائن پرجاتی ہے اور اس کے بعد مرد کو رجوع کا اختیار نہیں رہتا اور اس طرح نکاح ختم کرنے کو شریعت میں" خلع" کہا جاتا ہے۔

خلع شرعا  جانبین (زوجین) کے درمیان ہونے والا ایک عقدہے، جو نکاح وغیرہ دیگر عقود ومعاملات کی طرح جانبین کی رضامندی پر موقوف ہے،نیز خلع کے لیے شرعا عدالت میں جانے یا عدالتی فیصلےکی بھی ضرورت نہیں،لہذا نہ توصرف بیوی شوہر کی رضامندی کے بغیر خلع کا اختیار رکھتی ہے اور نہ ہی عدالت شوہر کی اجازت اورمرضی کے بغیر شرعایک طرفہ خلع کراسکتی ہے ،بلکہ زوجین آپس کی رضامندی سے اپنے صوابدید کے مطابق عوض خلع متعین کر کے آپس میں معاملہ کرسکتے ہیں،البتہ اگر خلع کی وجہ مرد کا قصور وار ہونا ہو تو مرد کے لیے خلع کا عوض لینا (خواہ وہ حق مہر ہو یااس سے زیادہ یااس کےعلاوہ کچھ اور(،شامیہ،ہدایہ،ہندیہ،بہشتی زیور))بڑا گناہ اور حرام ہے، اگر کچھ لے لیا تو اس کو اپنے اوپر خرچ کرنا بھی حرام ہے اور اگر قصور عورت ہی کا ہو تو جتنا مہر دیا ہے اس سے زیادہ لینا درست نہیں،حق مہر ہی کے عوض خلع کرلے، البتہ اگر حق مہر سے زیادہ لے لیا تو بھی نامناسب ہوا،لیکن گناہ نہیں۔(مزید تفصیل کے لیے کتاب بہشتی زیوریا تسہیل بہشتی زیور:ج۲،ص ۶۰ تا ۶۱ ملاحظہ ہو۔)

اس تفصیل کی روشنی میں آپ کے بنیادی سؤال کا جواب بھی معلوم ہوگیا کہ بلا کسی وجہ خلع لینے کی صورت میں عورت کے لیے حق مہر دینے سے انکار کرنا جائز نہیں ،لہذا اگر شوہر ایسی صورت میں خلع نہ دے تو وہ گناہ گار نہیں۔

واضح رہے کہ ازدواجی تعلقات کی بنیاد احکام الہیہ کے مطابق زوجین کی آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ الفت ومحبت اور ایک دوسرے کے حقوق کی پاسداری اور ایک دوسرے پر اعتماد اور بھروسہ کرنے پر قائم ہے،لہذا حتی الوسع کوشش کی جائے کہ یہ رشتہ ان اساسی بنیادوں پر قائم رہے،لیکن جہاں ہر ممکن کوشش کے باوجود رشتہ ازواج کے یہ بنیادی عناصر مفقود رہیں اور ان کی بحالی ممکن ہوتی نظر نہ آئے تو ایسی صورت میں جبر یا تشدد کے ساتھ اس رشتہ کو قائم رکھنا اس رشتہ کے اصلی روح اور حقیق مقصد کے منافی ہے۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 445)
(وكره) تحريما (أخذ شيء) ويلحق به الإبراء عما لها عليه (إن نشز وإن نشزت لا) ولو منه نشوز أيضا ولو بأكثر مما أعطاها على الأوجه فتح، وصحح الشمني كراهة الزيادة، وتعبير الملتقى لا بأس به يفيد أنها تنزيهية وبه يحصل التوفيق.
 (قوله: وكره تحريما أخذ الشيء) أي قليلا كان، أو كثيرا.والحق أن الأخذ إذا كان النشوز منه حرام قطعا{فلا تأخذوا منه شيئا} [النساء: 20]إلا أنه إن أخذ ملكه بسبب خبيث، وتمامه في الفتح،
الفتاوى الهندية (1/ 488)
إن كان النشوز من قبل الزوج فلا يحل له أخذ شيء من العوض على الخلع وهذا حكم الديانة فإن أخذ جاز ذلك في الحكم ولزم حتى لا تملك استرداده كذا في البدائع.
وإن كان النشوز من قبلها كرهنا له أن يأخذ أكثر مما أعطاها من المهر ولكن مع هذا يجوز أخذ الزيادة في القضاء كذا في غاية البيان.

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۹ربیع الثانی ۱۴۴۲ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب