021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بغیر پڑھے طلاق نامے پر دستخط کرنے کا حکم
73312طلاق کے احکامتحریری طلاق دینے کا بیان

سوال

میری بیوی کے ساتھ میرا جھگڑا ہوا جس کی وجہ سے بیوی ناراض ہو کر میکے چلی گئی۔ جب میں واپس لینے کے لیے سسرال گیا تو انہوں نے نہیں بھیجا۔ میں دوبارہ اپنے خاندان والوں کو ساتھ لے کر گیا جن میں میری بہنیں، بہنوئی، بھائی اور بھابھی وغیرہ تھے۔   میرے بھائی نے مجھے کہا کہ بیوی واپس نہیں  جانا چاہتی اس لیے ساتھ لف شدہ پیپر پر دستخط اور انگوٹھا لگا دو۔ میں نے یہ طلاق نامہ پڑھا نہیں تھا اور منہ سے طلاق کے الفاظ بھی نہیں کہے۔ مجھے شرعی حکم بتا دیں۔

اضافہ از مجیب: سائل سے زبانی سوالات کیے گئے جن کے مطابق سائل کے بقول اس نے صرف دو کلاسیں اسکول پڑھا ہے اور وہ پڑھنا نہیں جانتا۔ اسے یہ تو معلوم تھا کہ یہ طلاق نامہ ہے لیکن یہ نہیں معلوم تھا کہ اس میں کیا لکھا جاتا ہے اور یہ کیا کرتا ہے۔ اس کا بھائی اور بہنوئی بیوی کے پاس بات کرنے گئے اور واپس آ کر اسے بھائی نے یہ اس طرح دکھایا گویا کہ اس کے ذریعے ان کا معاملہ حل ہوگا اور اسے کہا کہ تمہاری بیوی نے کہا ہے کہ اس کے نیچے دستخط کر دو، پھر بیوی کے پاس جا کر اسے  کہا کہ تمہیں شوہر نے طلاق دے دی ہے اور تمہیں اس پر دستخط کرنے ہوں گے۔ سائل کے بقول نہ یہ طلاق نامہ اس نے خریدا ہے، نہ اس نے اسے بھرا ہے (سائل لکھنا نہیں جانتا) اور نہ ہی اس میں لکھی کسی چیز کے بارے میں جانتا ہے۔نیز نہ ان سے ان کے شناختی کارڈ طلب کیے گئے اور نہ ہی کسی گواہ سے دستخط کروائے گئے کہ انہیں کوئی شبہ ہوتا۔ دستخط کرنے کے بعد بتایا گیا کہ اس طلاق نامے سے طلاق ہو جاتی ہے اور اب تم لوگوں کا گھر ٹوٹ چکا ہے۔ پھر وہ دونوں میاں بیوی ساری رات روتے رہے۔ سائل اس کی وجہ کچھ گھریلو معاملات بتاتا ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال کے جواب سے پہلے بطور تمہید یہ سمجھ لینا چاہیے کہ طلاق کا معاملہ انتہائی اہم،  نازک اور حلال و حرام کا ہوتا ہے۔ سائل جو سوال پوچھتا ہے اس کے مطابق اسے دار الافتاء سے جواب دیا جاتا ہے لیکن اگر پوچھنے والا غلط بیانی کر کے اپنی مرضی کا جواب حاصل کر لے تو اس سے میاں بیوی کا تعلق جائز نہیں ہوتا بلکہ وہ عند اللہ مجرم ہی سمجھے جاتے ہیں اور سخت گناہ گار ہوتے ہیں۔

اس تمہید کے بعد اگر سوال میں لکھی ہوئی تمام باتیں درست ہیں یعنی آپ نے اس طلاق نامے کو پر نہیں کیا، نہ ہی آپ نے اسے لکھوایا ہے اور نہ ہی آپ کو معلوم تھا کہ اس میں کیا لکھا ہے  (کسی اور نے بھی آپ کو تفصیل نہیں بتائی تھی) تو صرف دستخط کرنے سے دیانۃً طلاق واقع نہیں ہوئی۔ لیکن اگر ان میں سے کوئی بھی بات درست نہ ہوئی یعنی اگر آپ نے اس طلاق نامے کو خود پر کیا ہے، کسی سے لکھوایا ہے یا  آپ کو معلوم تھا کہ اس میں کیا لکھا ہےاور آپ نے پھر بھی دستخط کر دیے تھے تو طلاق واقع ہو چکی ہے اور آپ کے لیے بغیر حلالہ شرعی کے اپنی بیوی سے تعلق رکھنا جائز نہیں ہے۔

یاد رہے کہ یہ حکم دیانت کا ہے یعنی اس کا تعلق گناہ کے ہونے یا نہ ہونے سے ہے۔ قضاء کے اعتبار سے چونکہ طلاق نامے پر دستخط کرنا کافی ہے اور آپ اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ یہ دستخط آپ کے ہی ہیں لہذا قاضی دونوں میاں بیوی کے درمیان تفریق کرے گا۔ نیز ایسے معاملات میں شرعاً بیوی بھی قاضی کی حیثیت رکھتی ہے لہذا اس پر لازم ہے کہ وہ آپ سے دور رہے، الا یہ کہ آپ قسم کھائیں کہ  آپ کو طلاق نامے میں لکھی تحریر کا علم نہیں تھا اور آپ کے علم کے بغیر دستخط کروائے گئے ہیں اور اسے آپ کی بات پر اعتبار آ جائے تو اس صورت میں وہ آپ کے ساتھ رہ سکتی ہے۔

حوالہ جات
ولو استكتب من آخر كتابا بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه الزوج وختمه وعنونه وبعث به إليها فأتاها وقع إن أقر الزوج أنه كتابة أو قال للرجل: ابعث به إليها، أو قال له: اكتب نسخة وابعث بها إليها، وإن لم يقر أنه كتابه ولم تقم بينة لكنه وصف الأمر على وجهه لا تطلق قضاء ولا ديانة، وكذا كل كتاب لم يكتبه بخطه ولم يمله بنفسه لا يقع الطلاق ما لم يقر أنه كتابه اهـ ملخصا.
(الدر المختار و حاشية ابن عابدين، 3/247، ط: دار الفكر)
 
والمرأة كالقاضي لا يحل لها أن تمكنه إذا سمعت منه ذلك أو علمت به؛ لأنها لا تعلم إلا الظاهر وكل موضع كان القول فيه قوله إنما يصدق مع اليمين؛ لأنه أمين في الإخبار عما في ضميره والقول قوله مع يمينه.
(تبيين الحقائق، 2/218، ط: المطبعة الكبرى)

محمد اویس پراچہ     

دار الافتاء، جامعۃ الرشید

02/ ذو القعدہ 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اویس پراچہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب