021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مقتول ماں بیٹے کی دیت کی رقم کی ورثہ میں تقسیم
73321قصاص اور دیت کے احکاممتفرق مسائل

سوال

ایک شخص نے اپنی دونوں بیویوں کو زندگی میں طلاق دے دی تھی،وراثت میں ایک مکان تھا،جس میں سے پہلی بیوی کا بڑا بیٹا دوسری بیوی کی اولاد کو حصہ دینے کے لیے تیار نہیں تھا،مختلف جرگے ہوئے،لیکن بڑا بیٹا ان کو حصہ دینے پر کسی طرح راضی نہ ہوا تو بالآخر ایک دن دوسری بیوی کا چھوٹا بیٹا اپنے بھائی سے ملنے گیا اور بولا کہ میری چھٹی ختم ہورہی ہے،میں واپس جارہا ہوں،ہمارا حصہ کب دوگے؟ اور اس نے کچھ بدمعاش لوگ بٹھائے ہوئے تھے،اس چھوٹے بیٹے نے اپنے بڑے سوتیلے بھائی اور سوتیلی ماں کو قتل کردیا۔

اس کے بعد دونوں بیویوں کی اولاد میں صلح ہوئی اور دیت پر بات چلی تو پہلے 47 لاکھ دیت طے ہوئی،بعد میں کچھ کم کرکے تیس لاکھ روپے پر دونوں فریق متفق ہوگئے،اب پوچھنا یہ ہے کہ دونوں بیویوں کی موجودہ اولاد میں دیت کی تقسیم کیسے ہوگی؟

یہ وضاحت بھی کریں کہ جس بھائی نے قتل کیا ہے اس کے حصے میں دیت کی رقم آئے گی یا نہیں؟

تنقیح: سائل نے بتایا کہ مقتولہ عورت کی چار سگی بیٹیاں ہیں،جبکہ بیٹا اسی کے ساتھ قتل کردیا گیا،پہلے بیٹے کو مارا گیا،پھر اس کی ماں کو،اس کے علاوہ اس کا کوئی ولی وارث نہیں، اور مقتول کی چار سگی بہنیں ہیں،تین سوتیلےیعنی باپ شریک بھائی ہیں اور دو سوتیلی یعنی باپ شریک بہنیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

1۔جو بھائی ان دونوں ماں بیٹوں کے قتل کا مرتکب ہوا ہے،اسے تو اس میں سے کوئی حصہ نہیں ملے گا۔

2۔چونکہ پہلے بیٹے کو مارا گیا ہے،اس لیے اس کی میراث میں اس کی مقتولہ ماں کا بھی حصہ ہوگا جو اب ان کے ترکہ (یعنی وہ سونا،چاندی،نقدی،جائیداد یا ان کے علاوہ جو بھی چھوٹا بڑا سامان وفات کے وقت ان کی ملکیت میں تھا)کا حصہ بن کر ان کی وفات کے وقت زندہ ورثہ میں تقسیم ہوگا۔

3۔دیت کی کل رقم کو دو پر تقسیم کیا جائے تو ہر مقتول کے حصے میں1,500,000 روپے آتے ہیں جس میں سے 250,000روپے ان کی مقتولہ ماں کا حصہ ہے اور اتنی ہی رقم ان کی ہر سگی بہن کو ملے گی،جبکہ قاتل کے علاوہ بقیہ دو باپ شریک بھائیوں میں سے ہر ایک کو 83,333.335روپے ملیں گے اور دو باپ شریک بہنوں میں سے ہر ایک کو 41,666.667 روپے ملیں گے۔

4۔مقتولہ والدہ کے حصے میں آنے والی دیت کی رقم کی مقدار1,500,000 روپے ہیں،جب بیٹے کی وراثت میں سے ان کے حصے آنے والی رقم کو اس کے ساتھ جمع کیا جائے تو مجموعی رقم 1,750,000 بنتی ہے،یہ مکمل رقم اور اس کے علاوہ شہادت کے وقت والدہ کی ملکیت میں جو سونا،چاندی،نقدی،جائیداد یا ان کے علاوہ کوئی بھی چھوٹا بڑا سامان جو ان کی ملکیت میں تھا سارا کا سارا ان کی چار بیٹیوں میں برابر تقسیم ہوگا،مقتولہ کے سوتیلے بیٹوں اور بیٹیوں کا شرعی لحاظ سے اس میں کوئی حق نہیں بنتا۔

والدہ کے حصے میں آنے والی دیت کی رقم اور بیٹے کی دیت میں سے ان کے حصے میں آنے والی مجموعی رقم میں سے ہر بیٹی کا حصہ 437,500  روپے بنتا ہے۔

حوالہ جات
"الدر المختار " (6/ 766):
"(وموانعه) على ما هنا أربعة (الرق)..... (والقتل) الموجب للقود أو الكفارة وإن سقطا بحرمة الأبوة على ما مر".
"الفتاوى الهندية" (6/ 21):
"إن صالح أحد الشركاء من نصيبه على عوض، أو عفا سقط حق الباقين عن القصاص وكان لهم نصيبهم من الدية".
"العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية" (2/ 256):
"(سئل) في رجل بيده بندقة مجربة يريد إصلاحها فأورت بحركته نارا فخرجت وأصابت بما كان فيها رجلا آخر فقتلته فادعى ولي القتيل على الرجل المذكور أنه قتله عمدا وأقر القاتل أنه قتله خطأ ولم يثبت الولي العمد فهل تكون دية المقتول في مال القاتل لورثة المقتول؟
(الجواب) : نعم حيث الحال ما ذكر لما قال قاضي خان إذا أقر القاتل أنه قتله خطأ وادعى ولي القتيل العمد فالدية في مال القاتل لورثة المقتول كذا في فصل القتل الموجب للدية وكذا في فصل المعاقل من جنايات الخانية وكذا في الضمانات في بيان من عليه الضمان والدية نقلا عن مبسوط شيخ الإسلام خواهر زاده".
"البحر الرائق " (8/ 577):
قال – رحمهﷲ - (ولا توارث بين الغرقى والحرقى إلا إذا علم ترتيب الموت) أي إذا مات جماعة في الغرق أو الحرق ولا يدرى أيهم مات أولا جعلوا كأنهم ماتوا جميعا فيكون مال كل واحد منهم لورثته ولا يرث بعضهم بعضا إلا إذا عرف ترتيب موتهم فيرث المتأخر من المتقدم وهو قول أبي بكر وعمر وزيد وأحد الروايتين عن علي - رضي ﷲ عنه - وإنما كان كذلك؛ لأن الإرث يبنى على اليقين بسبب الاستحقاق وشرطه وهو حياة الوارث بعد موت المورث ولم يثبت ذلك فلا يرث بالشك".
"الدر المختار " (5/ 634):
"(و) صح (في) الجناية (العمد) مطلقا ولو في نفس مع إقرار (بأكثر من الدية والأرش) أو بأقل لعدم الربا".
قال العلامة ابن عابدین رحمہ اللہ:" (قوله لعدم الربا) لأن الواجب فيه القصاص وهو ليس بمال".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

06/ذی قعدہ1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب