021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ایسے دیہات میں جمعہ کی نماز پڑھنا جس سے تین کلومیٹر کے فاصلے پرشہرموجود ہو
73314نماز کا بیانجمعہ و عیدین کے مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

ہماری بستی کانام "بھنجر"ہے جو فتح پورشہر سے تین کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے،اس  بستی میں اشیاءِ ضرورت کےلیے کریانہ،سبزی اورکولڈ ڈرنک کی دو دکانیں ہیں،اس کے علاوہ حمام کی بھی سہولت موجود ہے جبکہ اس کے علاوہ دیگرضرورتِ زندگی ہم  قریبی شہر فتح پور سے خریدکرپوری کر تے ہیں جوکہ ہماری بسی سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے،وہاں تک موٹر سائیکل پر پانچ، چھ منٹ کا سفرہے،یہاں پر پہلے سے(تقریباًعرصہ پندرہ سال سے) مستقل طورپر جمعہ ہورہاہے جس کے جواز کا فتوی مسجد کے متولی  تحصیل خیر پورضلع بہاولپورسے لائے تھے،جواز کا فتوی دینے والے دیوبندی مکتبہ فکر کے علاوہ بریلوی یا غیر مقلد حضرات تھے۔اب کچھ حضرات نےکہاہےکہ یہاں جمعہ جائز نہیں ہے جس کی وجہ سے  قرب وجواز کے علماء سے مسئلہ پوچھا گیا تو انہوں نے بھی کہا کہ یہاں جمعہ جائز نہیں ہے جس کی وجہ سے ہم تذبذب  کا شکارہوگئےہیں، اس لیے آپ کے دارالافتاء کی طرف رجوع کررہے ہیں ،تاکہ آپ ہمیں صحیح فتوی عنایت فرمائیں۔

اس بستی کے جو لوگ یہاں جمعہ کے لیے آتے ان کی تعدادتقریباً 160/162ہےیہ صرف اس محلے کی نمازیوں کی تعداد ہے،باقی اس محلہ میں مسجد کے قریب ایک مدرسہ بھی ہے وہاں کے طلبہ بھی نماز پڑھنے کےلیے اسی مسجد میں آتے ہیں جن  میں بڑے طلبہ کو میں نے اوپر کی تعداد میں شمارکیاہے،مگران طلبہ میں تقریباً 15لڑکے قریب البلوغ بھی ہیں اوروہ بھی نماز پڑھنے کےلئے آتے ہیں ،اسی طرح ان میں تقریباً 20 کے قریب ایسےسمجھداربچے بھی ہیں جو جمعہ پڑھنے کےلیے اسی مسجدمیں آتے ہیں، تواس اعتبارسے اس محلے کی ٹوٹل نمازی جو اس مسجد میں نمازپڑھنےکےلیے آتے ہیں 200کےلگ بھگ ہوئی ، اس کے علاوہ قرب وجوار میں سے بھی تقریبا115/120کے درمیان لوگ اس مسجد میں جمعہ پڑھنےکےلیے آجاتے ہیں ،کیونکہ ان سب کی جامع مسجد یہی ہے تو اس اعتبارسےاس مسجد میں جمعہ پڑھنے والوں کی کل تعداد 300سے کچھ زائد ہوجاتی ہے،اگرچہ یہ سب لوگ ہرجمعہ میں نہیں ہوتے جیسے کہ آج کل کا حال ہے کہ 600کی آبادی میں بمشکل 100/150تک لوگ جمعہ میں حاضر ہوتے ہیں تو اسی طرح ہماری مسجد میں بھی ٹوٹل تعداد اگرچہ 300سے اوپر ہے مگر کسی جمعہ میں100اورکسی میں اس سے زیادہ  اورکسی میں  اس سے کم ہوتے ہیں جیسے کہ آج کل کا حال ہے اور سب کو معلوم ہے،اس محلے کی اپنی ٹوٹل آبادی 600کے لگ بھگ ہے۔برائے کرم ہماری اس بستی کی مسجد میں جمعہ پڑھنے کا حکم بیان فرمادیں ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

حضراتِ حنفیہ رحمھم اللہ کے اصل مذہب کے مطابق جمعہ تین جگہ پڑھنا صحیح ہوتاہے :

﴿١﴾شہر۔

﴿۲﴾قصبہ یعنی بڑاگاؤں جس میں شہر کی طرح جملہ ضروریاتِ زندگی ملتی ہوں ۔

﴿۳﴾ فناء شہریافناءِقصبہ یعنی شہریاقصبہ کے متعلقہ مضافات۔

ان کے علاوہ چھوٹے گاؤں اوردیہات میں جمعہ پڑھناحنفیہ رحمھم اللہ کے ہاں جائزنہیں،ہاں اگرحکومت وہاں جمعہ قائم کرنے کاحکم کرے توپھر جمعہ پڑھناصحیح ہوجاتاہے۔ 

اس تمہید کے آپ کے سوال کاجواب درج ذیل ہے

سوال میں مذکورجگہ کےجوحالات آپ نے لکھے ہیں ان کی روسے نہ تویہ جگہ شہر ہے کہ اس بناء پر وہاں عید پڑھناصحیح ہوجائے اورنہ ہی کسی شہریابڑے گاؤں کے فناء کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ یہ جگہ کسی شہر یابڑے گاؤں کی مصالح اورضروریات کے لئے نہیں ،بلکہ عرف میں بالکل مختلف نام سے موسوم جگہ ہے، لہذااس بناء پربھی اس جگہ  جمعہ قائم کرنے کوجائزنہیں کہاجاسکتا،رہ گئی یہ بات کہ آیا اس جگہ کی اپنی حیثیت قریہ کبیرہ کی ہے کہ اس بناء پر جمعہ کی نماز وہاں جائز قراردی جائے ؟  تو اس جگہ کے جوحالات سائل نے استفتاء میں لکھےہیں ان کی روسے تو یہ یقیناً  قریہ کبیرہ نہیں ،لہذااس جگہ  جمعہ اورعیدین جائزنہیں ۔

واضح رہے کہ احناف رحمھم اللہکے نزدیک جمعہ کے جواز کا مدار افراد کی تعداد پر نہیں ، بلکہ اس بات پرہے کہ وہ جگہ شہر ہو یالوگوں کی جملہ ضروریات پوری کرنے میں شہر کی طرح ہو۔

حوالہ جات
وفی رد المحتار - (ج 6 / ص 44)
تقع فرضا في القصبات والقرى الكبيرة التي فيها أسواق قال أبو القاسم : هذا بلا خلاف إذا أذن الوالي أو القاضي ببناء المسجد الجامع وأداء الجمعة لأن هذا مجتهد فيه فإذا اتصل به الحكم صار مجمعا عليه ، وفيما ذكرنا إشارة إلى أنه لا تجوز في الصغيرة التي ليس فيها قاض ومنبر وخطيب كما في المضمرات والظاهر أنه أريد به الكراهة لكراهة النفل بالجماعة ؛ ألا ترى أن في الجواهر لو صلوا في القرى لزمهم أداء الظهر ، وهذا إذا لم يتصل به حكم ، فإن في فتاوى الديناري إذا بني مسجد في الرستاق بأمر الإمام فهو أمر بالجمعة اتفاقا على ما قال السرخسي ا هـ فافهم والرستاق القرى كما في القاموس
 
وفی رد المحتار - (ج 6 / ص 44)
لا تجوز في الصغيرة التي ليس فيها قاض ومنبر وخطيب كما في المضمرات والظاهر أنه أريد به الكراهة لكراهة النفل بالجماعة ؛ ألا ترى أن في الجواهر لو صلوا في القرى لزمهم أداء الظهر
الدر المختار للحصفكي - (ج 2 / ص 148)
(ويشترط لصحتها) سبعة أشياء: الاول: (المصر وهو ما لا يسع أكبر مساجده أهله المكلفين بها) وعليه فتوى أكثر الفقهاء.مجتبى لظهور التواني في الاحكام، وظاهر المذهب أنه كل موضع له أمير وقاض يقدرعلى إقامة الحدود كما حررناه فيما علقناه على الملتقى.وفي القهستاني: إذن الحاكم ببناء الجامع في الرستاق إذن بالجمعة اتفاقا على ما قاله السرخسي، وإذا اتصل به الحكم صارمجمعا عليه، فليحفظ (أو فناؤه) بكسر الفاء (وهو ما) حوله (اتصل به) أولا، كما حرره ابن الكمال وغيره (لاجل مصالحه) كدفن الموتى وركض الخيل، والمختار للفتوى تقديره بفرسخ، ذكره الولوالجي.(و) الثاني: (السلطان) ........(و) الثالث: (وقت الظهر .......(و) الرابع: (الخطبة فيه) فلو خطب قبله وصلى فيه لم تصح.(و) الخامس: (كونها قبلها) لان شرط الشئ سابق عليه ..........(و) السادس: (الجماعة) .........(و) السابع: (الاذن العام) من الامام، وهو يحصل بفتح أبواب الجامع للواردين، كافي.فلا يضر غلق باب القلعة لعدو أو لعادة قديمة، لان الاذن العام مقرر لاهله وغلقه لمنع العدو لا المصلي، نعم لو لم يغلق لكان أحسن كما في مجمع الانهر معزيا لشرح عيون المذاهب،قال: وهذا أولى مما في البحر والمنح، فليحفظ
الدر المختار للحصفكي ج: 2 ص: 150
(فناؤه) بكسر الفاء (وهو ما) حوله (اتصل به) أولا، كما حرره ابن الكمال وغيره (لاجل مصالحه) كدفن الموتى وركض الخيل، والمختار للفتوى تقديره بفرسخ، ذكره الولوالجي
رد المحتار - (ج 6 / ص 46)
اعلم أن بعض المحققين أهل الترجيح أطلق الفناء عن تقديره بمسافة وكذا محرر المذهب الإمام محمد وبعضهم قدره بها وجملة أقوالهم في تقديره ثمانية أقوال أو تسعة غلوة ميل ميلان ثلاثة فرسخ فرسخان ثلاثة سماع الصوت سماع الأذان والتعريف أحسن من التحديد لأنه لا يوجد ذلك في كل مصر وإنما هو بحسب كبر المصر وصغرهبيانه أن التقدير بغلوة أو ميل لا يصح في مثل مصر لأن القرافة والترب التي تلي باب النصر يزيد كل منهما على فرسخ من كل جانب ، نعم هو ممكن لمثل بولاق فالقول بالتحديد بمسافة يخالف التعريف المتفق على ما صدق عليه بأنه المعد لمصالح المصر فقد نص الأئمة على أن الفناء ما أعد لدفن الموتى وحوائج المصر كركض الخيل والدواب وجمع العساكر والخروج للرمي وغير ذلك وأي موضع يحد بمسافة يسع عساكر مصر ويصلح ميدانا للخيل والفرسان ورمي النبل والبندق البارود واختبار المدافع وهذا يزيد على فراسخ فظهر أن التحديد بحسب الأمصار ا هـ
رد المحتار - (ج 6 / ص 44)
في فتاوى الديناري إذا بني مسجد في الرستاق بأمر الإمام فهو أمر بالجمعة اتفاقا على ما قال السرخسي ا هـ فافهم  ،والرستاق القرى كما في القاموس
وفی رد المحتار - (ج 6 / ص 44) 
تقع فرضا في القصبات والقرى الكبيرة التي فيها أسواق قال أبو القاسم : هذا بلا خلاف إذا أذن الوالي أو القاضي ببناء المسجد الجامع وأداء الجمعة لأن هذا مجتهد فيه فإذا اتصل به الحكم صار مجمعا عليه مزیدتفصیل کے لئے دیکھئے امدادالاحکام ج:١ از صفحہ ۷۲۵تا۷۳١احسن الفتاوی ج:۴رسالة النخبة فی مسئلة الجمعہ والخطبہ اوراس کاتتمہ ج:١۰ص۳۹٦تا۴۲١اوراعلاء السنن ج۵ص ۲۲۷۴تا۲۲۹۹۔ 

سیدحکیم شاہ عفی عن

دارالافتاء جامعۃ الرشید

6/11/1442ھ   

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب