73352 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
والد نے اپنی زندگی میں تین بیٹوں کو تقریبا دو دو کنال زمین اس طور پر دی کہ اس پر اپنے اپنے گھر بنالو اور زندگی گزارو۔ تینوں بیٹوں نے اپنے اپنے حصے کی زمین پر باقاعدہ گھر تعمیر کیے جس میں وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ آج تک مقیم ہیں۔ اب والد کا انتقال ہوچکا ہے ، بھائیوں نے والد کی پوری وراثت میں سے اپنی بہنوں کو بھی جو ان کا حصہ بنتا تھا وہ دیا ہے ،لیکن اب مسئلہ یہ پیش آرہا ہے کہ بہنیں کہتی ہیں ہم ان گھروں میں سے بھی حصہ لیں گی۔ حالانکہ وہ والد نے اپنی زندگی میں اپنے بیٹوں کو زمین دی تھی پھر بیٹوں نے اس پر قبضہ بھی کرلیا تھا اور آج تک انہی جگہوں پر رہ رہے ہیں ۔ البتہ کاغذات میں وہ جگہ ان بیٹوں کے نام پر نہیں ہے۔ براہ مہربانی شرعی رہنمائ فرمائیے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اگر سوال میں ذکر کردہ تفصیل درست ہے اور والد صاحب نے بیٹوں کو زمین دینے کے بعد اس کا قبضہ بھی دیدیا تھا تو وہ زمین بیٹوں کی ملکیت ہوگئی تھی، لہٰذا اب بہنیں اس زمین میں وراثت کا مطالبہ نہیں کرسکتیں۔
تاہم اگر والد صاحب نے بیٹوں کو زمین دیکر بیٹیوں کو بلاوجہ کچھ بھی نہیں دیا تھا تو اس طرح کرنا درست نہیں تھا۔ کیونکہ جب کوئی شخص اپنی اولاد میں سے کسی ایک یا چند کو کوئی بڑی چیز مثلا مکان وغیرہ ہبہ کرنا چاہے تو عام حالات میں حکم یہ ہے کہ باقی اولاد کو بھی اس کے برابر یا کم از کم اصولِ میراث (بیٹی کو بیٹے کے مقابلے میں آدھا حصہ دینے) کے مطابق ہبہ کرے۔ بلا وجہ کسی ایک یا چند کو نواز کر دوسروں کو کچھ نہ دینا یا کم دینا جائز نہیں، اس کی وجہ سے والد گناہ گار ہوتا ہے۔ البتہ اگر کوئی بیٹا یا بیٹی والدین کی زیادہ خدمت کرتا ہو یا زیادہ ضرورت مند ہو یا اور کوئی وجۂ ترجیح ہو تو ایسی صورت میں اس وجۂ ترجیح کی بنیاد پر صرف اسے کوئی چیز دینے کی بھی گنجائش ہے، بشرطیکہ بقیہ اولاد کو نقصان پہنچانا مقصود نہ ہو۔
اس لیے ایسی صورت میں اگر بیٹے اپنی رضامندی سے اپنی بہنوں کو ان کے حقِ میراث کے علاوہ
کچھ رقم یا اور کوئی مال دیدیں تو امید ہے والد صاحب سے رہ جانے والی کمی کی تلافی ہوجائے گی، لیکن بہنیں اپنے بھائیوں سے اس کا مطالبہ نہیں کرسکتیں۔
حوالہ جات
رد المحتار (4/ 444):
وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير اتقوا الله وعدلوا في أولادكم، فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة،وفي الخانية: ولو وهب شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض روى عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره،وروى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم وعليه الفتوى وقال محمد يعطى للذكر ضعف الأنثى،وفي التتارخانية معزيا إلى تتمة الفتاوى قال: ذكر في الاستحسان في كتاب الوقف وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في العطايا والعدل في ذلك التسوية بينهم في قول أبي يوسف وقد أخذ أبو يوسف حكم وجوب التسوية من الحديث وتبعه أعيان المجتهدين وأوجبوا التسوية بينهم وقالوا يكون آثما في التخصيص وفي التفضيل.
عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ
دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
6/ذی قعدہ/1442ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبداللہ ولی | مفتیان | مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب |