021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کالے خضاب سے متعلق بعض روایات کا جواب(کالے خضاب سے متعلق جے ٹی آر کے ایک کلپ کی وضاحت)
73374جائز و ناجائزامور کا بیانناخن ،مونچھیں اور ،سر کے بال کاٹنے وغیرہ کا بیان

سوال

حضرت مفتی صاحب! جے ٹی آر میڈیا ہاؤس میں ایک سؤال آیا تھا بالوں کو کالا کرنے کے بارے میں، آپ نے اس کا جواب دیا، اس بارے میں ایک اشکال تھاکہ آپ نے بالوں کو کالا کرنے کے بارے میں جو احادیث ہیں ان کو سند کے اعتبار سے کم درجہ قرار دیا ہے اور آپ نے دو روایتوں سے استدلال فرمایا ،پہلی روایت جو غالبا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ  کے بارے میں تھی کہ آپ نے بال کالے کئے تھے کہ سامنے سے  حضرت عمر رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو آپ نے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا کہ کہ اے عمرو!یہ کیا ہے؟ تو حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ امیر المؤمنین! میں چاہتا ہوں کہ جب آپ مجھے دیکھیں تو جوان دیکھیں۔

 دوسری تاریخی روایت آپ نے ارشاد فرمایا کہ جب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا سر  مبارک کاٹ کر ابن زیاد کے سامنے لایا گیا تو اس وقت حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے سر مبارک پر کالا رنگ لگا ہوا تھا یعنی بالوں پر۔

مفتی صاحب! معلوم کرنا ہے کہ ہمارے امام صاحب رحمہ اللہ تعالی کا اصول یہ ہے کہ ضعیف حدیث آنے پر آپ قیاس کو ترک فرمادیتے ہیں، اور حدیث شریف پر عمل فرماتے ہیں، اب ایک طرف احادیث صحیحہ مبارکہ موجود ہیں تو اس صورت میں صرف صحابی رضی اللہ عنہ کے عمل پر فتوی دینا کیسا ہے؟

دوسرا اشکال یہ ہے کہ دوسرا واقعہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا تاریخی واقعہ ہے اور حضرت مفتی اعظم پاکستان( سابق)مفتی محمدشفیع رحمہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب مقام صحابہ میں فرمایا ہے کہ تاریخی واقعات سے مسائل نہیں نکال سکتے۔ مفتی صاحب یہ چند اشکالات تھے امید ہے  کہ جلد از جلد جواب عنایت فرمائیں گے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

حضرت مفتی اعظم پاکستان( سابق)مفتی محمدشفیع رحمہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب جواہر الفقہ میں مندرج رسالہ "ڈاڑھی کے احکام "میں خضاب لگانے کی تین صورتیں ذکرفرمائی ہیں:

1.جائز 2. ناجائز 3. مختلف فیہ

1.    دشمن پر رعب ڈالنےکے لیے جہاد میں مصروف مجاہد کے لیے خضاب لگانا ،یہ بالاتفاق جائز ہے۔

2.    کسی کو دھوکہ دینے کے لیے خضاب لگانا مثلا مرد عورت کو یا عورت مرد کو دھوکہ  دینے کے لیے خضاب لگائے اسی طرح غلام یاملازم اپنےآقا یا ادارے  وغیرہ کو دھوکہ دینے کے لیے خضاب لگائے، یہ بالاتفاق ناجائز ہے۔

3.    صرف زینت کے لیے خضاب لگائے تاکہ اپنی بیوی کو خوش کرے، اس میں اختلاف ہے، جمہور فقہاء کے نزدیک یہ مکروہ تحریمی ہے، جبکہ امام ابویوسف رحمہ اللہ تعالی اور دیگر بعض مشایخ سے اس کا جواز بھی منقول ہے، اور اس اختلاف کی وجہ اس بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول اختلاف ہے، جن حضرات سے سیاہ خضاب منقول ہے،ان میں حضرت حسن،حضرت حسین، حضرت عثمان بن عفان ، عبد اللہ بن جعفر ،سعد بن وقاص، عمر وبن العاص ، عقبہ بن عامر ،مغیرہ بن شعبہ، جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہم شامل ہیں۔چنانچہ امام ابویوسف اور دیگر مشایخ رحمہم اللہ نے انہی حضرات کے تعامل سے استدلال فرمایا ہے اوران حضرات کے نزدیک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ممانعت سےمتعلق ارشادات دھوکہ دہی اور تلبیس کی صورت کے ساتھ مخصوص ہیں۔

جبکہ جمہور اہل علم کے نزدیک اس بارے میں اصل ، معیار وحجت احادیث مرفوعہ ہیں،جو صحاح ستہ کی صحیح احادیث ہیں،جن کےمقابلہ میں ابن ماجہ کی ضعیف روایت سے استدلال درست نہیں(کمافی احسن الفتاوی:ج۸،ص۳۵۹ فی رسالۃ"طریق السداد لمحل الخضاب"للشیخ العلامۃ المفتی رشید احمد اللدھیانوی رحمہ اللہ تعالی)نیزان حضرات کے نزدیک مذکورحضرات صحابہ کرام کا خضاب خالص سیاہ نہ تھا،بلکہ سرخی مائل بہ سیاہ تھا،یا ان کا یہ عمل پہلی صورت پر محمول ہے،نیزاگر عمر وبن العاص رضی اللہ عنہ سے سیاہ خضاب منقول بھی ہے تو اسکے بارے حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ سے نکیر بھی منقول ہے۔

باقی یہاں یہ اعتراض درست نہیں کہ ایک صحابی کے قول کو حدیث پر کیسے ترجیح دی گئی جبکہ اصولا حدیث کو قیاس پر ترجیح ہے، اس لیے کہ یہاں حدیث کو قول صحابی کی وجہ سے چھوڑا نہیں گیا، بلکہ ان صحابہ نے اس کی تاویل کی ہے۔

دوسرے اعتراض کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا واقعہ تاریخی ہے اور تاریخی واقعات سے استدلال درست نہیں تواس کا جواب یہ ہے کہ یہ بات صحیح نہیں، اس لیے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا یہ عمل  تاریخی واقعہ نہیں، بلکہ کتب روایت میں باقاعدہ تعامل کے طور پر منقول ہےاور جب کسی صحابی سے کوئی کام منقول ہو اور وہ مستند بھی ہو تو وہ محض تاریخی بات نہیں ہوتی،بلکہ وہ روایت  آثار کے قبیل سے ہوتی ہے جو احکام میں فی الجملہ معتبر ہوتی ہے۔

حاصل یہ کہ جس صورت میں اختلاف ہے اس میں احتیاط عمل اور فتوی میں یہی ہے کہ خالص سیاہ خضاب غیر غازی کے لیے مکروہ ہے،(ازجواہر الفقہ) البتہ اگر کوئی واقعۃ بیوی کے لیے زینت ہی کی نیت سے یہ عمل کرے تو اس پر طعن وتشنیع بھی درست نہیں، اس لیے کہ اس صورت  کا حکم مختلف فیہ ہے۔

حوالہ جات
السنن الكبرى للبيهقي (7/ 508)
أخبرنا أبو زكريا بن أبي إسحاق، نا أبو العباس هو الأصم نا بحر بن نصر، نا ابن وهب، أخبرني ابن لهيعة، عن أبي قبيل المعافري، أنه قال: دخل عمرو بن العاص على عمر بن الخطاب رضي الله عنه وقد صبغ رأسه ولحيته بالسواد , فقال عمر رضي الله عنه: " من أنت؟ " قال: أنا عمرو بن العاص قال: فقال عمر رضي الله عنه " عهدي بك شيخا وأنت اليوم شاب عزمت عليك إلا ما خرجت فغسلت هذا السواد "
المستدرك على الصحيحين للحاكم (3/ 604)
حدثني أبو علي الحافظ، ثنا الهيثم بن خلف الدوري، ثنا داود بن رشيد، ثنا إسماعيل بن عياش، حدثني سالم بن عبد الله الكلاعي، عن أبي عبد الله القرشي، قال: دخل عبد الله بن عمر على عبد الله بن عمرو، وقد سود لحيته، فقال عبد الله بن عمر: السلام عليك أيها الشويب، فقال له ابن عمرو: أما تعرفني يا أبا عبد الرحمن؟ قال: بلى أعرفك شيخا، فأنت اليوم شاب إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «الصفرة خضاب المؤمن، والحمرة خضاب المسلم، والسواد خضاب الكافر»
[التعليق - من تلخيص الذهبي]
حديث منكر
شرح السنة للبغوي (12/ 94)
ولم يكرهه قوم، قال الشعبي: رأيت الحسن بن علي قد خضب بالسواد.
وقال معمر: عن الزهري، كان الحسين بن علي يخضب بالسواد.
قال معمر: ورأيت الزهري يغلف بالسواد، وكان قميصا.
وقال ابن شهاب: عن سعد بن أبي وقاص، إنه كان يخضب بالسواد.
وروي أن أبا سلمة بن عبد الرحمن كان يخضب بالسواد.
وسئل محمد بن علي عن الوسمة؟ فقال: هو خضابنا أهل البيت.
وقال معمر: عن قتادة، رخص في صباغ الشعر بالسواد للنساء.
وعن حماد بن سلمة، عن أم شبيب، قالت: " سألنا عائشة عن تسويد الشعر؟ قالت: لوددت أن عندي شيئا سودت به شعري ".
وقال مالك في صبغ الشعر بالسواد: لم أسمع في ذلك بشيء، وغير ذلك من الصبغ أحب إلي، وترك الصبغ كله واسع للناس.
وقال أيوب: عن محمد بن سيرين، لا أعلم بخضاب السواد بأسا إلا أن يغر به رجل امرأة.
قال النووي في "شرح مسلم" 14/80: ومذهبنا استحباب خضاب الشيب للرجل والمرأة بصفرة أو حمرة، ويحرم خضابه بالسواد على الأصح، وقيل: يكره كراهة تنزيه، والمختار التحريم لقوله صلى الله عليه وسلم: "واجتنبوا السواد"، هذا مذهبنا ... وخضب جماعة بالسواد روي ذلك عن عثمان والحسن والحسين=ابني علي وعقبة بن عامر وابن سيرين وأبي بردة وآخرين. قال القرطبي في "المفهم" 5/419: ولا أدري عذر هؤلاء عن حديث أبي قحافة ما هو؟ فأقل درجاته الكراهة، كما ذهب إليه مالك.
تحفة الأحوذي (5/ 355)
 فائدة قال الحافظ في الفتح قد تمسك به يعني بحديث أبي هريرة المذكور من أجاز الخضاب بالسواد وقد تقدمت في باب ذكر بني إسرائيل من أحاديث الأنبياء مسألة استثناء الخضب بالسواد لحديثي جابر وبن عباس وأن من العلماء من رخص فيه في الجهاد ومنهم من رخص فيه مطلقا وأن الأولى كراهته
وجنح النووي إلى أنه كراهة تحريم وقد رخص فيه طائفة من السلف منهم سعد بن أبي وقاص وعقبة بن عامر والحسن والحسين وجرير وغير واحد واختاره بن أبي عاصم في كتاب الخضاب له وأجاب عن حديث بن عباس رفعه يكون قوم يخضبون بالسواد لا يجدون ريح الجنة بأنه لا دلالة فيه على كراهة الخضاب بالسواد بل فيه الإخبار عن قوم هذه صفتهم
وعن حديث جابر جنبوه السواد بأنه في حق من صار شيب رأسه مستبشعا ولا يطرد ذلك في حق كل أحد انتهى
وما قاله خلاف ما يتبادر من سياق الحديثين نعم يشهد له ما أخرجه هو عن بن شهاب قال كنا نخضب بالسواد إذا كان الوجه جديدا فلما نغض الوجه والأسنان تركناه۔

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۱۰ذیقعدہ ۱۴۴۲ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب