021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ایک ہی مجلس سے قضاء اوردیانت دونوں کا حکم جاری کرنا
73471فیصلوں کے مسائلثالثی کے احکام

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

   جمعیت علماءِ اسلام رنگون /میانمارمیں قائم مجلسُ القضاء میں نکاح وطلاق کے معاملے کے فیصلے کئے جاتے ہیں، میاں بیوی مجلس القضاء کو حکَم مقرر کرنے کے بعد مجلس القضاء قاضی کی حیثیت سے فیصلہ کرتی ہے ،عورت تین طلاق سننے کی مدعی ہے اورشوہرمنکرہے ،اس صورت میں اگرعورت بینہ قائم نہ کرسکی تو شوہر سے قسم لی جاتی ہے ،شوہر اگر قسم کھالے تو مجلسُ القضاء اس کے حق میں فیصلہ دیتی ہے، یعنی شوہر کے لیے بیوی سے ازدواجی تعلق قائم کرنا جائز ہے، ساتھ ہی جمیعت کی مجلسُ الافتاء عورت کو ایک فتوی بصورتِ تحریر دیتی ہے اورمجلس القضاء کا فیصلہ بھی بصورتِ تحریر ہوتاہے،مجلسُ الافتاء کے ارکان اورمجلسُ القضاء کے ارکان ایک ہی ہیں ،اس فتوی میں عورت کوشوہر سے چھٹکارا بذریعہ خلع وغیرہ حاصل کرنے کو کہا جاتاہے ۔کیا اس طرح کرنا جائز ہے یانہیں ؟ ایک ہی ادارہ سے دو طرح کے آراء جو  بظاہر متعارض نظر آتےہیں اس  طرح کرنا درست ہے یانہیں ؟اس بارےمیں جو مناسب ہو ارشاد فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

      زوجین نے جب مجلسُ القضاء کو حَکم بنالیا  تو فیصلہ تومجلس القضاء اس حکم کے مطابق کرے گی جو قضاءً ثابت ہو، لیکن صورتِ مسئولہ میں پہلے مجلس القضاء کو چاہیے کہ شوہر کو خدا کا خوف دلا کر صحیح صحیح بیان دینے پر آمادہ کرے ، اور جھوٹے حلف کا گناہ ، نیز مطلقہ ثلاثہ کو اپنے پاس رکھنے کا گناہ اسے بتادے ، اس کے باوجود وہ اگر حلف اٹھالے اور عورت کوئی بینہ پیش نہ کرسکے تومجلس فیصلہ مرد کے حق میں دیدے ، لیکن عورت کو بحیثیتِ مفتی دیانت کا حکم بھی بتا دے ، بلکہ اگر مجلس کو عورت کی سچائی کا ذاتی طور پر گمانِ غالب ہوتو عورت کو مر د سے علیحدہ رکھنے کی جو تدبیر بھی اس کے اختیار میں ہو ، اسےبھی نجی طور سے اختیار کرے ، اور اس معاملے میں نجی طور پر عورت کی پوری مدد کرے ، اس میں کوئی حرج کی بات  نہیں۔

حوالہ جات
وفی الدر المختارج:۴،ص:۳۵۵،۳۵۶  
و عن الامام ان علم القاضی فی طلاق و عتاق و غضب یثبت الحیلولۃ علی وجہ الحسبۃ لا القضاء.
اس کے تحت علامہ شامی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :۔
قولہ:’’یثبت الحیلولۃ‘‘ أی بأن یأمر بأن یحال بین المطلق وزوجتہ والمعتق وأمتہ أو عبدہ والغاصب وما غصبہ بأن یجعلہ تحت ید أمین الی أن یثبت ما علمہ القاضی بوجہ شرعی (قولہ علی وجہ الحسبۃ) أی الاحتساب وطلب الثواب لئلا یطأھا الزوج أو السید أو الغاصب (قولہ لا القضاء) أی لا علی طریق الحکم بالطلاق أو العتاق أو الغضب ۔[ رد المحتار ،ج:۴،ص:۳۵۵،۳۵۶ باب کتاب القاضی الی القاضی ، مطلب قضاء القاضی بعلمہ]
تاہم اگرمسئولہ صورت میں مجلسُ القضاء ظاہری تعارض سےبھی  بچناچاہتی ہے تو پھروہ مجلسُ الافتاء مجلس القضاء سے ہٹ کر الگ جگہ پر قائم کردے اورفیصلے کے بعد عورت کو وہاں سے فتوی لینے کا مشورہ  دیدے۔

.حکیم شاہ

دارالافتاء جامعة الرشید کراچی

19/11/1442

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب