03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
متفرق طلاقوں کی صورت میں عدت کی ابتداء پہلی طلاق سے ہوگی
73484طلاق کے احکامعدت کا بیان

سوال

میں نے اپنی بیوی کو 14 دسمبر 2020 کو ایک رجعی طلاق دی،پھر دوسری رجعی طلاق 18 جنوری 2021 کو دی اور ہمارے درمیان اس دوران تعلقات قائم نہیں ہوئے،پھر اس کے بعد انہوں نے تیسری طلاق کا مطالبہ کیا،لیکن مجھے علماء نے مشورہ دیا کہ تیسری طلاق دینے کا کوئی فائدہ نہیں،اس لیے میں نے تیسری طلاق نہیں دی یہاں تک کہ فروری،مارچ،اپریل،مئی کا مہینہ گزرگیا اور آج جون  کی 26 تاریخ ہے۔

نیز آج بھی ان کی طرف سےطلاق کا تیسرا اسٹام آیا ہے،لڑکی کے وکیل کا کہنا ہے کہ لڑکی کے شناختی کارڈ سے زوجیت یا آپ کا نام ختم کرنے کے لیے آپ کا تیسرا اسٹام کرنا ضروری ہے،اس سلسلے میں میرے چند سوالات ہیں:

1۔میری سابقہ بیوی کی عدت کب سے شروع ہوگی،14دسمبر سے یا 18 جنوری سے؟

2۔میری سابقہ بیوی کب بائنہ ہوگی،14 مارچ کو یا 18 اپریل کو؟

3۔کیا آج ہم میں سے کوئی بھی کسی دوسری جگہ نکاح کرسکتا ہے؟

تنقیح :سائل سے معلوم ہوا کہ اس کی بیوی حائضہ ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

۔عدت کی ابتداء طلاق کے فورا بعد ہوجاتی ہے،لہذا آپ کی بیوی کی عدت 14 دسمبر سے شروع ہوئی ہے۔

2۔سب سے پہلے تو آپ یہ بات سمجھ لیں کہ چار مہینے دس دن مطلقہ عورت کی عدت نہیں ہوتی،بلکہ  یہ اس عورت کی عدت  ہے جس کے شوہر کا انتقال ہوجائے اور وہ حمل کی حالت میں نہ ہو،مطلقہ عورت کی عدت کی تفصیل درج ذیل ہے:

حائضہ)جس عورت کو ماہواری آتی ہو) عورت کی عدت تین ماہواریاں ہیں اور جس عورت کو حیض)ماہواری) نہیں آتا اس کی عدت تین مہینے ہیں،جبکہ طلاق کے وقت اگر عورت امید سے ہو تو پھر اس کی عدت بچے کی ولادت تک ہوتی ہے۔

چونکہ آپ کی بیوی کو حیض آتا ہے،اس لیے پہلی طلاق کے بعد سےجس دن اس کی تیسری ماہواری ختم ہوئی اس دن اس کی عدت بھی ختم ہوگئی۔

3۔چونکہ مرد کو چار شادیوں کی اجازت ہے،اس لیے آپ تو سابقہ بیوی کے نکاح میں ہوتے ہوئے بھی دوسرا نکاح کرسکتے تھے،البتہ آپ کی بیوی کی اگر عدت گزرچکی ہے اور عدت کے دوران آپ نے زبانی یا عملی طور پر طلاق سے رجوع نہیں کیا تو عدت گزرنے کے بعد وہ بھی کسی اور سے نکاح کرسکتی ہے۔

حوالہ جات

"الدر المختار " (3/ 520):

"(ومبدأ العدة بعد الطلاق و) بعد (الموت) على الفور (وتنقضي العدة وإن جهلت) المرأة (بهما) أي بالطلاق والموت لأنها أجل فلا يشترط العلم بمضيه سواء اعترف بالطلاق، أو أنكر".

"الفتاوى الهندية "(1/ 526):                                    

"إذا طلق الرجل امرأته طلاقا بائنا أو رجعيا أو ثلاثا أو وقعت الفرقة بينهما بغير طلاق وهي حرة ممن تحيض فعدتها ثلاثة أقراء سواء كانت الحرة مسلمة أو كتابية كذا في السراج الوهاج.

والعدة لمن لم تحض لصغر أو كبر أو بلغت بالسن ولم تحض ثلاثة أشهر كذا في النقاية.....

وعدة الحامل أن تضع حملها كذا في الكافي. سواء كانت حاملا وقت وجوب العدة أو حبلت بعد الوجوب كذا في فتاوى قاضي خان ".

قال العلامة ابن عابدین رحمہ اللہ :"(قوله: ومنع غيره) أي غير الزوج في العدة لاشتباه النسب بالعلوق، فإنه لا يوقف على حقيقته أنه من الأول، أو الثاني، وهذا حكمة شرعية العدة في الأصل".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

20/ذی قعدہ1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب