021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تین طلاقوں کا حکم
73481طلاق کے احکامطلاق کے متفرق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

میرانام اعجازاحمدولد الہی بخش ہے، میں تحصیل تونسہ شریف، ضلع ڈیرہ غازی خان کا رہائشی ہوں، میراشرعی نکاح شرعِ محمدی کے مطابق سمیرا بنت محمدشریف سے ہوا اوررخصتی بھی ہوگئی اس کے تقریباً7/8ماہ کے بعدمیں  اپنی مذکورہ بیوی کے خالہ کو ناجائز طریقے سے بھگاکرلایاجس پر اس کے ورثہ نے مجھ پراورمیرے فیملی کے دیگرفراد والد ،والدہ بھائی اورماموں پر عورت کے اغواء کامقدمہ درج کروایا اورپولیس میرے گھر والوں کو پریشان کرنے لگی،اس مصیبت سے نکلنے کی صرف ایک ہی راستہ تھاکہ وہ عورت جس کو میں بھگاکرلایا تھا وہ ہمارے حق میں عدالت میں بیان دیدے کہ میں از خود اپنی مرضی اورخوشی سے گئی تھی ،مجھے کسی نے اغواء نہیں کیا،یہ بات تب ہوسکتی ہے تھی جب میں اس سے نکاح کرتامگر نکاح میں دو رکاوٹیں تھیں ،ایک رکاوٹ تو یہ تھی کہ یہ عورت میرے ساتھ نکاح اورمیرے حق میں بیان دینے پر اس شرط پر راضی ہوتی کہ میں پہلی بیوی کو طلاق دیدوں اس لیے کہ یہ دونوں عورتیں باہم خالہ اوربھانجی  ہیں، بیک وقت ان دونوں کو میں لیے نکاح میں رکھنا جائز نہیں تھا،جس عورت کو میں بھگاکرلایاتھا اس کو میں بیوی بنانے پر میں دلی طورپر راضی نہیں تھا،مگرمقدمہ بازی سے جان چھڑانے کےلیے ایسا کرنا مجبوری بن چکی تھی ،اسی مجبوری کی وجہ سے محض عورت کو مطمئن کرنے کےلیے یہ بیان دیا اوراس سے نکاح ظاہرکرنے کے لیے 15دن پہلے کی تاریخ ڈال کر یہ ڈرامہ کیا،میرا نکاح ہی نہیں ہوا ،میں نے چونکہ طلاق نہیں دینی تھی صرف اس عورت کو مطمئن کرناتھا،لہذا میں حلفیہ بیان کرتاہوں کہ میری نیت سمیرابنت محمد شریف کو طلاق دینے کی نہیں بالکل نہیں تھی ،بات پہلے ہی طے تھی ،صرف بیان دینے اورعدالت میں بذریعہ بیان مقدمہ خارج کروانااوررسوائی سے بچنے کے لیے صرف رسمی وجھوٹی کاروائی کرنا تھی ،میں شرعی وقانونی سمجھ بھوج نہیں رکھتااس لیے آئندہ کے اثرات سے بچنے کے لیے بیانِ حلفی جو حقیقت پر مبنی ہے تحریرکروادیاہے،باقی فون پر مجھ سے محمد حنیف نے پوچھا تھا تو میں نے اس کوبھی اس پر لکھے ہوئے کی وجہ سے اورچونکہ ابھی وہ مقصد بیان کرانیکا پورا نہیں ہوا تھااس لیے اس کو بھی میں نے یہی کہاکہ میں نے چھوڑی ہے یعنی پہلے والے پروگرام کی خبردی جس کا پسِ منظر اوپرلکھاجاچکاہے جس کو یہ کہہ سکتے ہیں کہ جھوٹی خبردی ہے۔اب شریعت کا میرے نکاح سے متعلق کیاحکم ہے؟ اس کے بارے  میں قرآن وسنت کے مطابق فتوی دیاجائے۔

گواہوں کے بیانات اگلے صفحہ پرملاحظہ فرمائیں۔

گواہ نمبرایک محمد حنیف کا بیان

ظہر کے بعد میں  یعنی محمد حنیف کے نمبر پر اعجاز کی کال آئی اورپوچھاکہ کہاں ہو؟میں نے کہاکہ امان اللہ کی بیٹھک پر ہوں تواعجاز نے کہا کہ فون کی آواز اوپن کردوتاکہ سب لوگ میری آواز سن لیں،اس وقت ہم تین افراد موجود تھے،یعنی محمد اسلم، دلشاد احمد اورمیں محمد حنیف،پھر اعجاز احمدنے کہاکہ "میں نے محمد شریف کی لڑکی چھوڑدی سب سن لیں" اس نے چھوڑٕنے یہ الفاظ دو تین مرتبہ سے زائدکہے، پھر اس نے طلاق طلاق کے الفاظ شروع کردیئے ، پھر اس طلاق کے دوران محمد اسلم نے پوچھاکہ تمہاری تو دو بیویاں ہیں؟  تو اس نے کہا کہ میں محمد شریف کی لڑکی کو طلاق دے رہاہوں پھر اعجاز نے دوبارہ طلاق والے الفا ظ شروع کردیئے،طلاق کے بے شمارالفاظ کہے ،اسی دوران میں یعنی محمدحنیف نے اپنا فون بند کردیا۔

گواہ نمبردو محمد اسلم کا بیان

ا ب ج نے کہا کہ میں اپنی بیوی فلاں کی دخترکو طلاق دیتاہوں ،فون کی آوازکھول دیں اورپوچھا کہ کون کون موجود ہیں،اس موقع پر موجود تین افراد تھے جو ان جو بتادیے گئے ،اس پر اسن نے کہا کہ" میں اپنی بیوی فلاں دخترفلاں کو طلاق دیتاہوں"اس کے بعد اس نے طلاق دیتاہوں کے الفاظ دہرانا شروع کئے، طلاق ہے طلاق ہے ........تقریباً دس سے زیادہ مرتبہ کہتارہاکہ طلاق ہے ،طلاق ہے ، اس کے بعد ہم نے فون بند کردیا۔

گواہ نمبرتین دلشاد کا بیان

اسلم اورحنیف نے دلشاد کو ظہر کی نماز ادا کرنے کے بعد اس معاملے کہ لیے بلایا کہ اعجاز نےسابقہ بیوی کو طلاق دی ہے،جبکہ دلشاد اس بات سے مطمئن نہیں تھا، لہذا اسلم اورحنیف نے اعجاز کے ساتھ فون پر رابطہ کیا، دلشاد نے حنیف کو کہا کہ میں جب تک خود اس کی زبان سے نہیں سنوں گا، میں نہیں مانوں گا،حنیف نے اعجاز کو مس کال دی تو اعجاز نے فون کیا آواز اوپن تھی تو اس نے فون پر یہ باتیں کہیں تو اس نے طلاق کے لفظ بولے جن کی تعداد دو تین سے زیادہ تھی ، اس کے بعد فون بند ہوگیاہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مسئولہ صورت میں تینوں  گواہوں  یعنی محمد حنیف ،محمد اسلم اوردلشاد کے بیانات  سےیہ بات بالکل واضح ہے کہ اعجاز نے طلاق کے الفاظ تین سے زیادہ مرتبہ کہےہیں، البتہ محمدحنیف کے بیان میں یہ اضافہ ہے کہ پہلے محمد اعجازنے تین مرتبہ چھوڑدی کا لفظ استعمال کیا اورپھر طلاق کے الفاظ کہے، جبکہ باقی دوگواہوں کے بیانات میں چھوڑدی کے الفاظ کا ذکرنہیں،تاہم اس سے مسئلہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا، اس لیے کہ لفظ چھوڑدی بھی ہمارے عرف میں طلاق ہی کے لئے استعمال ہوتا ہے ،لہذا  اس سےبھی طلاقِ صریح واقع ہوگی،اور جب تین مرتبہ یہ لفظ یا طلاق کا لفظ کہا تو تین طلاقیں واقع ہوکرحرمتِ مغلظہ ثابت ہوگئی ہے،لہذا  اب نہ رجوع ہوسکتاہے اورنہ  ہی حلالہ کے بغیر نکاح ۔

باقی محمد اعجاز کا یہ کہنا کہ میراارادہ طلاق دینے کا نہیں تھا صرف مقدمہ سے بچنے کےلیے کہاتھا ،اورگواہوں کو طلاق کی جھوٹی خبر دی تھی وغیرہ وغیرہ  تو ان سب باتوں سےمسئلہ پر کوئی فرق نہیں پڑٕتا،مسئلہ یہی ہےکہ مسئولہ صورت میں  تینوں طلاق ہوچکی ہیں ،اورحرمتِ مغلظہ ثابت ہوچکی ہے۔

حوالہ جات
وفی الشامیة ﴿۴؍،۵۳۰ زکریا ﴾
فإن سرحتک کنایۃ لکنہ في عرف الفرس غلب استعمالہ في الصریح، فإذا قال: رہا کردم أی سرحتک یقع بہ الرجعي مع أن أصلہ کنایۃ أیضا وما ذاک إلا لأنہ غلب في عرف الناس استعمالہ في الطلاق۔
وفیہا ایضاً﴿۴/۵۳۰﴾
 (قولہ) وقد مر أن الصریح مالم یستعمل إلا في الطلاق، من أي لغۃ کانت ۔ (شامي، کتاب الطلاق، باب الکنایات، زکریا۴/۵۳۰، کراچي۳/۲۹۹جدیدزکریا۱/۵۳۵)
وفیہا ایضاً﴿۴: ۵۳۰، ۵۳۱﴾
وأما إذا تعورف استعمالہ في مجرد الطلاق لا بقید کونہ بائناً یتعین وقوع الرجعي بہ کما في فارسیة: ”سرحتک“ ، ومثلہ ما قدمناہ في أول باب الصریح من وقوع الرجعي بقولہ: ”سن بوش“ أو ”بوش أول“ في لغة الترک مع أن معناہ العربي: أنت خلیة وھو کنایة، لکنہ غلب في لغة الترک استعمالہ فی الطلاق (شامی ۴: ۵۳۰، ۵۳۱)
وفی الہندیۃ﴿ ۱:۳۷۹﴾:
 والاصل الذی علیہ الفتویٰ فی زماننا ھذا فی الطلاق بالفارسیۃ انہ اذا کان فیہا لفظ لا یستعمل الا فی الطلاق فذلک اللفظ صریح یقع بہ الطلاق من غیر نیۃ اذا اضیف الی المرأۃ۔ (فتاویٰ عالمگیریۃ ۱:۳۷۹ الفصل السابع فی الالفاظ الفارسیۃ)
وفی فتاوی دارالعلوم دبوبند علی الشبکة العنکبوتیة
 ”آزاد کردیا“ کی طرح ”چھوڑدیا“ کا لفظ بھی اردو محاورے میں طلاق کے معنی میں صریح ہے، راجح یہی ہے (دیکھئے: امداد الفتاوی ۲: ۴۵۶، سوال: ۵۵۰، امداد الاحکام ۲: ۴۴۳، ۴۴۵، ۴۴۶، ۴۴۸، امداد المفتین ص ۶۱۶، فتاوی محمودیہ جدید ڈابھیل ۱۲: ۳۴۰-۳۵۸، سوال: ۶۰۸۸-۶۰۹۹، فتاوی رحیمیہ جدید تخریج شدہ ۸: ۲۹۶، ۲۹۷، سوال: ۳۶۶، آپ کے مسائل اور ان کا حل جدید تخریج شدہ ۶: ۴۳۹، احسن الفتاوی۵: ۱۶۶، منتخبات نظام الفتاوی ۲: ۲۱۳، ۲۳۵، فتاوی عثمانی ۲: ۳۴۱-۳۴۵، ۳۴۸، ۳۶۱، ۳۶۵) ، پس اس کا حکم وہی ہوگا جو اوپر ”میں نے تمھیں آزاد کردیا“ یا ”تم میری طرف سے آزاد ہو“ وغیرہ کا تحریر کیا گیا۔ https://darulifta-deoband.com/home/ur/talaq-divorce/63306
وفی البحر الرائق شرح كنز الدقائق - (ج 9 / ص 137)
 ولو أقر بالطلاق وهو كاذب وقع في القضاء ا هـ .
وفی الشامیة:
’’ولو أقر بالطلاق كاذباً أو هازلاً وقع قضاءً لا ديانةً‘‘.  (3 / 236،  کتاب الطلاق، ط: سعید) فقط واللہ اعلم
 
وفیہ ایضاً- (ج 15 / ص 195)
واستثنى في القنية من الوقوع قضاء ما إذا شهد قبل ذلك لأن القاضي يتهمه في إرادته الكذب فإذا أشهد قبله زالت التهمة ، والإقرار بالعتق كالإقرار بالطلاق وقيده البزازي بالمظلوم إذا أشهد عند استحلاف الظالم بالطلاق الثلاث أنه يحلف كاذبا قال يصدق في الحرية ، والطلاق جميعا وهذا صحيح ا هـ .
وفی العالمگیریة﴿۱/۴۷۳﴾                                                                                                              
وإن کان الطلاق ثلاثاً في الحرۃ، وثنتین في الأمۃ لم تحل لہ حتی تنکح زوجاً غیرہ نکاحاً صحیحاً ویدخل بہا، ثم یطلقہا، أو یموت عنہا۔ (العالمگیرية، زکریا قدیم ۱/۴۷۳، زکریا جدید ۱/۵۳۵)
وفی بدائع الصنائع:
وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله - عز وجل - {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: 230] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة۔ (3/187، فصل في حكم الطلاق البائن، کتاب الطلاق) 

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید      

20/11/1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب