021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بلٹی کی پرچی کٹوتی کرکے لینا
73483خرید و فروخت اور دیگر معاملات میں پابندی لگانے کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ملک کے مختلف حصوں سے مال بردار گاڑیاں ٹرک، ٹرالر وغیرہ سامان لاتے ہیں اور اپنا کرایہ وصول کرتے ہیں۔ اکثر اوقات مال ایک جگہ اتارا جاتا ہے، کرایہ کہیں اور سے ملتا ہے۔ مثلا سامان گودام میں اتارا گیا اور کرایہ دفتر سے جو کہ دوسری جگہ ہوتا ہے، وصول کرنا پڑتا ہے، یا گڈز کمپنی کے دفتر سے وصول کرنا پڑتا ہے۔  اس میں درمیان میں بروکر بھی آجاتے ہیں جو ڈرائیوروں سے کرایہ کی پرچی لے کر ان کو کرایہ دیتے یا دلواتے ہیں اور اس پر کمیشن لیتے ہیں، اس کی مندرجہ ذیل صورتیں ہوتی ہیں۔

(1)۔۔۔ میں ایک بروکر ہوں، میرا کام یہ ہے کہ جہاں سے کرایہ ملتا ہے، میں وہاں سے کرایہ وصول کرنے جاتا ہوں، کرایہ دس ہزار ہو یا ایک لاکھ یا جو بھی ہو، ہم (بروکر) ایک گاڑی سے 500 روپے لیتے ہیں۔ اگر راستہ میں چوری یا کوئی حادثہ پیش آئے تو کل رقم کی ذمہ داری بروکر پر ہوتی ہے۔  (سائل نے فون پر بتایا کہ بروکر یہ پانچ سو روپے اپنے کرایہ اور خرچ کے طور پر لیتے ہیں)۔

(2)۔۔۔ کچھ بروکر گاڑی والوں کو اپنی طرف سے اسی وقت نقد ادائیگی کرتے ہیں اور 500 کے بجائے 800 روپے لیتے ہیں۔ یعنی جو 500 روپے ہمارے متعین ہیں، اس پر 200 یا 300 اضافی لیتے ہیں۔

(3)۔۔۔ کچھ گاڑیوں کا کرایہ بر وقت نہیں ملتا، پانچ دس دن بعد مل جاتا ہے۔ بروکر ان (ڈرائیوروں) سے 500 کے علاوہ مثلا ایک لاکھ پر ٪18 اور ڈیڑھ لاکھ پر ٪ 24 لیتے ہیں۔ اسی طرح جس قدر رقم زیادہ ہوتی ہے، اسی حساب سے کمیشن میں اضافہ ہوتا ہے۔ (اس صورت میں بروکر ڈرائیور کو اپنی طرف سے اسی وقت نقد رقم دیدیتا ہے، اور وہ خود پھر پانچ دس دن بعد گڈز کمپنی وغیرہ سے لیتا ہے)۔

(4)۔۔۔ بہت سے مالکان نقد ادائیگی کے بجائے مستقبل کی کسی تاریخ (دس پندرہ بعد ) کا چیک دیتے ہیں (جبکہ بروکر ڈرائیور کو اسی وقت نقد رقم دیدیتا ہے)۔ اس میں بھی بروکر حسبِ شقِ ثالث کمیشن وصول کرتا ہے۔

     سوال یہ ہے کہ ان میں سے کون سی صورت جائز اور کون سی صورت ناجائز ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں مذکور پہلی صورت جائز ہے؛ بروکر کے لیے دوسری جگہ سے رقم لانے اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری اٹھانے کے عوض 500 روپے بطورِ اجرت لینا درست ہے۔ دوسری، تیسری اور چوتھی صورت جائز نہیں؛ کیونکہ ان تینوں صورتوں میں بروکر ڈرائیور سے اس کا دین، نقد کم رقم دے کر خرید تا ہے جو کہ "بیع الدین من غیر مَن علیہ الدین" (اپنا دین مدیون کے علاوہ کسی کو بیچنا) اور ایک کرنسی کو اپنی ہم جنس کرنسی کے بدلے کمی زیادتی کے ساتھ فروخت کرنے کی وجہ سے شرعا ناجائز ہے۔

البتہ ان تینوں صورتوں کا جائز متبادل یہ ہو سکتا ہےکہ ڈرائیور حضرات آپ کو فیکٹری سے  اپنا کرایہ وصول کرنے کا وکیل بنادیں، اور اس وکالت پرآپ  کے لیے کوئی اجرت  بھی مقرر کرلیں،  پھر  ایک   الگ اور نئے معاملہ کے ذریعے آپ سے  اپنے متعیّن  کرایہ کے بقدر رقم بطورِ قرض لےلیں اورساتھ  ہی  آپ  کو اس بات کا اختیار دیدیں کہ جب گڈز کمپنی یا سامان کے مالک کے دفتر سے میرا کرایہ  وصول ہوجائے  تو  آپ اس سے اپنا قرض (جو بروکر نے ڈرائیور کو دیا ہو) وصول کرلیں۔ اس صورت میں ڈرائیور وکالت کی اجرت الگ سے دے گا۔ اگر وہ الگ سے اجرت دینے کے بجائے اجرت بھی اپنے کرایہ میں شمار کرنا چاہے تو پھر بروکر اسے، کرایہ سے اجرت کی مقدار منہا کرنے کے بعد بچ جانے والی رقم کے بقدر قرض دے گا۔ اس طرح دو معاملات الگ الگ ہوجائیں گے:  پہلا معاملہ ’’ توکیل بالاجرۃ ‘‘ یعنی اجرت کے بدلے میں بروکر کو کرایہ کی وصولی کا وکیل بنانے کا، اور دوسرا معاملہ کمی زیادتی کی شرط کے بغیر قرض لینے کا۔  واضح رہے کہ یہ متبادل دو شرائط کے ساتھ مشروط ہے:-

پہلی شرط یہ ہے کہ قرض اور وکالت کے معاملات الگ الگ ہوں، ایک دوسرے کے ساتھ مشروط نہ ہوں۔ اگر ان میں سے کسی ایک معاملے (مثلا ڈرائیور کو قرض دینے) کو دوسرے معاملے (مثلا بروکر کو کرایہ کی وصولی کا وکیل بنانے) کے ساتھ مشروط کردیا گیا تو یہ متبال بھی ناجائز ہوجائے گا۔

دوسری شرط یہ ہے کہ وکالت کی اجرت اصل مالک سے کرایہ کی وصولی کی مدت کے ساتھ مربوط نہ ہو۔ لہٰذا وکالت کی اجرت طے کرتے وقت بروکر کو رقم کی وصولی جلدی یا دیر سے ہونے کی وجہ سے اجرت میں کمی بیشی جائز نہیں ہوگی، مدت سے قطع نظر باہمی رضامندی سے اجرت متعین کرنی ہوگی۔

حوالہ جات
بدائع الصنائع (5 / 148):
ولا ينعقد بيع الدين من غير من عليه الدين؛ لأن الدين إما أن يكون عبارة عن مال حكمي في الذمة، وإما أن يكون عبارة عن فعل تمليك المال وتسليمه، وكل ذلك غير مقدور التسليم في حق البائع.
بحوث في قضايا فقهية معاصرة (1 / 25-24):
و إن حامل الکمبیالة، و هو الدائن الأصیل، ربما یبیعها إلی طرف ثالث بأقل من المبلغ المکتوب علیها؛ طمعًا فی استعجال الحصول علی المبلغ قبل حلول الأجل. و إن هذا البیع یسمی خصم الکمبیالة (Disconting  of  the  Bill)، فکلما أراد حامل الکمبیالة أن یتعجل فی قبض مبلغها ذهب إلی شخص ثالث، و هو البنك فی عموم الأحوال و عرض علیها الکمبیالة، و البنك یقبلها بعد التظهیر (Endorsement) من الحامل، و یعطی مبلغ الکمبیالة نقدًا بخصم نسبة مئویة منها.  وإن خصم الكمبيالة بهذا الشكل غير جائز شرعا، إما لكونه بيع الدين من غير من عليه الدين، أو لأنه من قبيل بيع النقود بالنقود متفاضلة ومؤجلة، وحرمته منصوصة في أحاديث ربا الفضل.
ولكن هذه المعاملة يمكن تصحيحها بتغيير طريقها، وذلك أن يوكل صاحب الكمبيالة البنك باستيفاء دينه من المشتري (وهو مصدر الكمبيالة) ويدفع إليه أجرة على ذلك، ثم يستقرض منه مبلغ الكمبيالة، ويأذن له أن يستوفي هذا القرض مما يقبض من المشتري بعد نضج الكمبيالة، فتكون هناك معاملتان مستقلتان:
 الأولى: معاملة التوكيل باستيفاء الدين بالأجرة المعينة.
 والثانية: معاملة الاستقراض من البنك والإذن باستيفاء القرض من الدين المرجو حصوله بعد نضج الكمبيالة.
 فتصح كلتا المعاملتين على أسس شرعية. أما الأولى، فلكونها توكيلا بالأجرة، وذلك جائز، وأما الثانية، فلكونها استقراضا من غير شرط زيادة، وهو جائز أيضا.  و لکن یجب لصحة هذه العملیة أمران:
الأول: أن لا یکون أحد العقدین شرطًا للآخر، فلا یشترط فی القرض الوکالة و لا القرض فی الوکالة. و الثانی: أن لا یکون أجرة الوکالة مرتبطة بمدة نضج الکمبیالة.

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

22/ذی قعدہ/1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب