021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
جائے وقوعہ پر چورسے رہ جانے والے موبائل کا حکم
73496گری ہوئی چیزوں اورگمشدہ بچے کے ملنے کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں :

میرا ایک دوست ہے ۔ کچھ عرصہ پہلے اس کے گھر میں چوری ہوئی ہے ۔ چور زیور اور سب سامان لے گیا  لیکن اپنا ایک موبائل چھوڑ گیا ۔ اس موبائل میں کوئی سم نہیں ہے ۔ موبائل میں کچھ نمبرز محفوظ تھے ۔ ان نمبرات پر رابطہ کیا تو ایک نمبر سے علم ہوا کہ یہ موبائل چوری کا ہے اور جن صاحب سے رابطہ ہوا ، ان کا دعوی تھا کہ یہ موبائل ان کا ہے۔

معلوم یہ کرنا ہے کہ اب اس موبائل کا کیا کیا جائے ؟ آیا جن صاحب کے گھر چوری ہوئی ہے ، وہ اس موبائل کو اپنے ذاتی استعمال میں لا سکتے ہیں ؟ یا پھر جن صاحب نے موبائل اپنا ہونے کا دعوی کیا ہے ، ان کو دے دینا چاہیے ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

کوئی بیش قیمت چیز گری ہوئی مل جائے اورچیز کے مالک کا علم نہ ہو تو اسے فقہی اصطلاح میں لقطہ کہتے ہیں ۔ صورت مسئولہ میں چور سے جو موبائل رہ گیا ہے ، وہ لقطہ کے حکم میں ہے ، یعنی اگر اس کے مالک کا علم ہو جائے تو اسے وہ موبائل لوٹانا لازم ہے ۔ ذاتی استعمال میں لانا درست نہیں ، لہذا جن صاحب نے موبائل اپنا ہونے کا دعوی کیا ہے ، اگر موبائل کی کوئی نشانی معلوم کرنے سے یا کسی بھی ذریعہ یہ غالب گمان ہو جائے کہ یہ موبائل ان صاحب کا ہے تو ان کو لوٹانا ضروری ہے ۔ بصورت دیگرشرعی حکم یہ ہے کہ  اس موبائل میں محفوظ نمبرات یا کسی بھی ذریعے سے اس موبائل کے مالک کو تلاش کرکے ان کی چیز انہیں لوٹائی جائے ، البتہ اگر باوجود کوشش کے مالک کا علم نہ ہو سکے اور یہ یقین ہو چلے کہ اب موبائل کے مالک نے رابطہ نہیں کرنا ہے تو اس موبائل کو بیچ کر اس کی رقم صدقہ کرنا  ضروری ہے۔

حوالہ جات
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (6/ 202)
(ولنا) ما روي عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أنه قال «لا تحل اللقط فمن التقط شيئا فليعرفه سنة فإن جاءه صاحبها فليردها عليه وإن لم يأت فليتصدق» والاستدلال به من وجهين أحدهما أنه نفى الحل مطلقا، وحالة الفقر غير مرادة بالإجماع فتعين حالة الغنى والثاني أنه أمر بالتصدق ومصرف الصدقة الفقير دون الغني وأن الانتفاع بمال المسلم بغير إذنه لا يجوز إلا لضرورة ولا ضرورة إذا كان غنيا.
وأما الحديث: فلا حجة له فيه لأن قوله - عليه الصلاة والسلام - فشأنك بها إرشاد إلى الاشتغال بالحفظ؛ لأن ذلك كان شأنه المعهود باللقط إلى هذه الغاية أو يحمله على هذا توفيقا بين الحديثين صيانة لهما عن التناقض وإذا تصدق بها على الفقراء فإذا جاء صاحبها كان له الخيار إن شاء أمضى الصدقة وله ثوابها، وإن شاء ضمن الملتقط أو الفقير إن وجده؛ لأن التصدق كان موقوفا على إجازته وأيهما ضمن لم يرجع على صاحبه
المبسوط للسرخسي (11/ 2)
اختلف الناس فيمن وجد لقطة فالمتفلسفة يقولون: لا يحل له أن يرفعها؛ لأنه أخذ المال بغير إذن صاحبه، وذلك حرام شرعا، فكما لا يحل له أن يتناول مال الغير بغير إذن صاحبه لا يحل له إثبات اليد عليه، وبعض المتقدمين من أئمة التابعين كان يقول: يحل له أن يرفعها والترك أفضل؛ لأن صاحبها إنما يطلبها في الموضع الذي سقطت منه، فإذا تركها وجدها صاحبها في ذلك الموضع، ولأنه لا يأمن على نفسه أن يطمع فيها بعد ما يرفعها فكان في رفعها معرضا نفسه للفتنة، والمذهب عند علمائنا - رحمهم الله - وعامة الفقهاء أن رفعها أفضل من تركها؛ لأنه لو تركها لم يأمن أن تصل إليها يد خائنة فيكتمها عن مالكها، فإذا أخذها هو عرفها حتى يوصلها إلى مالكها، ولأنه يلتزم الأمانة في رفعها؛ لأنه يحفظها ويعرفها، والتزام أداء الأمانة يفرض بمنزلة الثواب؛ لأنه يثاب على أداء ما يلتزمه من الأمانة، فإنه يمتثل فيه الأمر

عبدالدیان اعوان

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

24 ذو القعدہ 1442

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبدالدیان اعوان بن عبد الرزاق

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب