021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ظالمانہ جی ایس ٹی (ٹیکس )سے بچنے کے لیے تدبیر اختیارکرنا
73528جائز و ناجائزامور کا بیانخریدو فروخت اور کمائی کے متفرق مسائل

سوال

حکومت ہند کی جانب سے جو جی ایس ٹی( ٹیکس) لگایا گیا ہے،اس سے کاروبار بہت متاثر ہوا ہے،جس کی وجہ سے نفع نکالنا ایک مشکل مسئلہ بن گیا ہے،اس سے بچنے کے لیے لوگوں نے یہ تدبیر اختیار کی ہے،مثلا کوئی آدمی کسی کے یہاں فرنیچر بناتا ہے اور ایک کروڑ میں معاملہ طے ہوتا ہے تو مالک کام مکمل ہونے کے بعد ایک کروڑ بھی دے گا اور جی ایس ٹی الگ سے اٹھارہ لاکھ بھی دے گا،اب یہ کام کرنے والا کسی دکان دار سے پچاس لاکھ کا بل بنوالیتا ہے تو اس وقت نو لاکھ جی ایس ٹی میں جائیں گے اور نو لاکھ بچ جائیں گے،جس میں بعض دفعہ کچھ کمیشن بل بنانے والے کو بھی دینا پڑتا ہے،خلاصہ یہ  ہے کہ نو لاکھ روپے کا نفع اس تدبیر سے بچ جاتا ہے،ورنہ تو بے فائدہ ٹیکس دینا پڑتا ہے اور نفع کچھ حاصل نہیں ہوتا تو اس طرح تدبیر کرنا شرعا کیسا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر کسی مملکت پر کوئی ایسا وقت آپڑے کہ قومی خزانے کی رقم عوامی ضروریات اور مصالح کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہوجائے جیسا کہ آج کل حکومتوں کو بہت سی ایسی خدمات فراہم کرنی پڑتی ہیں جو پہلے حکومتوں کی ذمہ داری نہیں ہوا کرتی تھی، مثلا: ملک میں بجلی اور گیس کی فراہمی،نیز بہت سے  ایسےشعبے جوپہلےاگر ہوتے بھی تھے،لیکن ان کے اخرجات اتنے زیادہ نہیں ہوتے تھےجتنے آج کل بڑھ گئے ہیں ،مثلا :دفاع کے لیے جدید ہتھیاروں کی تیاری،پختہ سڑکوں کی تعمیر،مواصلات کے جدید ذرائع،ابلاغ کے وسائل،تعلیم اور صحت،ان میں سے ہر شعبے کے اخراجات بے پناہ ہیں تو اس صورت میں فقہاء کرام نے درج ذیل شرائط کے ساتھ صرف بوقتِ ضرورت اور  بقدرِ ضرورت ٹیکس عائد کرنے کی گنجائش دی ہے:

1۔حکومت کے مصارف کو اسراف وتبذیر سے پاک کیا جائے۔

2۔ٹیکس اتنا ہی لگایا جائے جو ضرورت پوری کرنے کے لیے کافی ہو،یہاں تک کہ قومی خزانے میں وسعت پیدا ہوجائے۔

3۔ٹیکس عائدكرنے میں انصاف سے کام لیا جائے،یہ نہ ہو کہ کسی پر بہت زیادہ ٹیکس عائد ہو اور اسی قسم کے دوسرے شخص پر اس سے کم لگایا جائے۔

4۔قومی خزانہ خالی ہو، یعنی اس میں موجود مال درپیش ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہو۔

5۔ٹیکس کی رقم ملک وملت کی حقیقی ضرورتوں اور مصالح پر خرچ کی جائے،بے جا ضائع نہ کی جائے۔

6۔لوگوں پر ان کی حیثیت کے مطابق ٹیکس لگایا جائے،یعنی ٹیکس کی شرح اتنی زیادہ نہ مقرر کی جائے جس کی ادائیگی لوگوں کے لیے بوجھ بن جائے۔

اگر حکومتی ٹیکسز میں درج بالا شرائط کی پاسداری کی جائے تو پورے ٹیکس کی ادائیگی لازم ہے اور اگر مذکورہ بالا شرائط کی پاسداری نہ کی جائے تو جتنا ٹیکس ناحق وصول کیا جارہا ہو اس سے بچنے کے لیے حیلہ اور کوئی مناسب تدبیر اختیار کرنے کی گنجائش ہے،باقی یہ بات کہ حکومت کتنی مقدار جائز وصول کررہی ہے اور کتنی ناجائز؟اس بارے میں ٹیکسیشن کے ماہرین ہی بتاسکتے ہیں،ہر فرد کے بارے میں یہ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ اس سے ناجائز ٹیکس لیا جارہا ہے،ہاں اگر کوئی شخص محسوس کرتا ہے اور اسے ٹیکسیشن نظام کے بارے میں یقین ہے کہ اتنی مقدار غیر ضروری اور ناجائز ہے تو اس کے لیے ناجائز ٹیکس سے خود کو بچانے کے لیے تدبیر اختیار کرنے کی گنجائش ہے۔

نیز غیر مسلم حکومتوں میں عوامی ٹیکس سے کفریہ اور ناجائز کام بھی کئے جاتے ہیں،مثلا مندروں کی تعمیر و اخراجات،شرکیہ میلوں کی تقریبات وغیرہ،اس لیے ٹیکس کی جتنی رقم ان ناجائز کاموں میں حکومت صرف کرتی ہے اس کا محتاط اندازہ لگاکر اس تناسب سے بھی ٹیکس سے بچنا جائز ہے۔

حوالہ جات
"رد المحتار" (5/ 330):
"(قوله: وكذا النوائب) جمع نائبة وفي الصحاح النائبة المصيبة واحدة نوائب الدهر اهـ، وفي اصطلاحهم ما يأتي. قال في الفتح قيل أراد بها ما يكون بحق كأجرة الحراس وكري النهر المشترك والمال الموظف لتجهيز الجيش وفداء الأسرى إذا لم يكن في بيت المال شيء وغيرهما مما هو بحق، فالكفالة به جائزة بالاتفاق؛ لأنها واجبة على كل مسلم موسر بإيجاب طاعة ولي الأمر فيما فيه مصلحة المسلمين ولم يلزم بيت المال أو لزمه ولا شيء فيه وإن أريد بها ما ليس بحق كالجبايات الموظفة على الناس في زماننا ببلاد فارس على الخياط والصباغ وغيرهم للسلطان في كل يوم أو شهر فإنها ظلم".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

25/ذی قعدہ1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے