021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
انجینئرز کا اپنا PEC/Supervisory سرٹیفیکیٹ کمپنیوں کو فروخت کرنے کا حکم
73537خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ  پاکستان میں قانون ہے کہ ہر مل، کمپنی یا فیکٹری نے اپنے حجم کے اعتبار سے ہر سال مخصوص تعداد میں Certified Engineers بھرتی کرنے ہوتے ہیں جس کی بنیاد پر حکومت ان کو ملک کے اندر کام کرنے کے لیے NOC جاری کر دیتی ہے۔ ہمارے ہاں Pakistan Engineering Council والے ہر سال ایسے  Engineers جن کو ایک سال تک کہیں نوکری نہیں ملتی ان کو    ایک سال کی مدت کے حامل Supervisory Certificates  بنا کے دیتی ہیں جس کی مدد سے یہ Certified Engineers کہلاتے ہیں اور اس کی بنیاد پر یہ انجنیئر  آگے مختلف ملز اور فیکٹریوں میں کام کر سکتے ہیں جس کے لیے وہ کمپنی، ِمل یا فیکٹری اس انجنیئر کو 20,000 سے 25,000 یا اس کے لگ بھگ تنخواہ کے طور پر ماہانہ ادا کرنے کی پابند ہوتی ہے جو کہ ایک سال میں 2,50,000 کی رقم بن جاتی ہے۔

                                    اب مسئلہ یہ ہے کہ ایسی کمپنیاں جن کو Certified Engineers چاہیے ہوتے ہیں وہ ایسے انجنیئرز جن کو Supervisory Certificates مل چکے ہوتے ہیں وہ ان سے رابطہ کرتی ہیں اور ان سے under the table معاملات میں  یہ بات طے کر لیتی ہیں کہ وہ اپنا یہ  سرٹیفکیٹ 50,000 سے  100000 تک کی رقم کے درمیان اس کمپنی کو بیچ دیں۔ آگے کمپنی تحقیقات کرنے والے اداروں کو بھی ظاہر کروا دے گی کہ یہ Engineer ہمارے ادارے کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ اس کا فائدہ کمپنی کو یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی 150000 کی رقم بچا لیتی  ہے جو انجنیئرز کو تنخواہ کی مد میں دینا پڑتی تھی اور انجنیئرز کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس کو گھر بیٹھے کام کیے بغیر ایک سال کی  بےروزگاری کے  بعد  یکمشت

                         اتنی رقم مل جاتی ہے۔

                                    اب غور طلب بات یہ ہے کہ  کیا Engineers کو   اپنا Certificate  اس طرح بیچنا  درست

                         ہے؟ کہ اسے کام کیے بغیر تنخواہ ملتی رہے اور کمپنیوں کے لیے اسے خریدنا درست ہے کہ وہ اپنا پیسہ بچانے کے لیے  یہ طریقہ کار اختیار کر کے حقداروں کو انکا حق نہ دیں۔

                  اس لیے اب ہمیں بتائیں کہ ہم Engineers اس صورت میں کیا کریں؟؟؟؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے  کہ حکومت کا مذکورہ طریقے سے کمپنیوں اور فیکٹریوں  کو پابند کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ  ان کا  کام باقاعدہ ماہرین کی نگرانی میں اور صحیح معیار پر ہو ،تاکہ جو بھی حکومتی فنڈ خرچ ہو اس سے معیاری  کام ہو۔ نیز  اسی طرح اس قانون سے  پاکستان انجیئنرنگ کونسل Pakistan Engineering Council کا ایک بہت بڑا مقصد یہ بھی ہے کہ اپنے فارغ ہونے والے انجیئنرز Engineers کو روزگار کے مواقع فراہم کرے ، کیونکہ ان کی  کوشش ہوتی ہے  کہ کوئی بھی انجیئنر بے روزگار نہ ہو۔

            اس تفصیل سے یہ واضح ہے کہ یہ ایک مصلحت پر مبنی قانون ہے،لہٰذا اس کی پابندی شرعا لازم ہے ،مگر عملی طور پر  صورت  قصہ یہ ہے کہ کمپنیوں کی آپس میں ایسی  اجارہ داری  ہے کہ وہ انجیئنرز Engineers کو جاب دینے کی بجائے ان کے ساتھ ایک لم سم رقم طے کرتے ہیں اور اس کے عوض  ان سے  سرٹیفیکیٹ لے کر انہیں فارغ کردیتے ہیں ،جبکہ حکومت کے سامنے  کاغذات میں انہیں اپنا مستقل ملازم دکھاتے ہیں ۔

لہٰذا صورت مسئولہ کا حکم یہ ہے کہ  انجیئنروں سے معاملہ کی یہ صورت درج ذیل وجوہ سے ناجائز ہے:   

            1۔یہ طریقہ دھوکہ دہی اور صریح جھوٹ پر مشتمل ہے۔

            2۔اس میں حکومت کے جائز اور مبنی بر مصلحت قانون کی خلاف ورزی ہے۔

            3۔اس طریقہ پر کام میں عوام کے ٹیکس  سے جمع ہونے والی رقوم غیر معیاری کام میں صرف ہوتے ہیں جس کا نقصان بھی بالآخر عوام ہی کو ہوتا ہے۔

            4۔ نیز اس لیے بھی کہ یہ لائسنس حکومت و پاکستان انجیئنرنگ کونسل کی جانب سے ایک اجازت نامہ ہے ،کوئی ایسا مال نہیں ہے کہ اسے کرایہ پر لیا دیا جاسکے ،یا فروخت کیا جاسکے۔

            5۔ مذکورہ انجینئر کو اس کی صلاحیت اور تعلیم کی بنیاد پر رجسٹرڈ  انجینئر یا سپر وائزر انجیئنر  کی سند دی گئی ہے، اگر اس سند کو دکھا کر کوئی غیر تربیت یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ شخص آرڈر حاصل کرلے تو اس میں اس کے کام کو صحیح طرح نہ

کرنے کی وجہ سے لوگوں کی جانوں کا خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔

            لہذا انجیئنرز (Engineers )کو یہ  لازم ہے  کہ وہ اپنا سرٹیفیکٹ ہرگز فروخت نہ کریں بلکہ سب متحد  ہوکر کمپنیز سے باقاعدہ جاب کا مطالبہ کریں ۔ اس سے حکومتی قوانین کی پابندی بھی ہوگی، کام بھی معیاری ہوگا ، پاکستان انجیئنرنگ کونسل (PEC) کی شرائط کے پورا ہونے کے ساتھ  ساتھ انجیئنرز( Engineers) کو حقیقی روزگار بھی ملے گا۔

حوالہ جات
قال اللہ تبارک و تعالی:وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ.(سورۃ المائدۃ:2)
وقال ایضا:ولا تأكلوا أموالكم بينكم بالباطل وتدلوا بها إلى الحكام لتأكلوا فريقا من أموال الناس بالإثم وأنتم تعلمون. (سورۃ البقرۃ:188)
و قال ابن کثیر رحمہ اللہ:وقوله: "وتعاونوا على البر والتقوى ولا تعاونوا على الإثم والعدوان" يأمر تعالی عباده المؤمنين بالمعاونة على فعل الخيرات، وهو البر، وترك المنكرات وهو التقوى، وينهاهم عن التناصرعلى الباطل. والتعاون على المآثم والمحارم.(تفسير ابن كثير:12/2)
قال العلامۃ الشامی رحمہ اللہ: قوله: (أمر السلطان إنما ينفذ): أي يتبع، ولا تجوز مخالفته، وسيأتي قبيل الشهادات عند قوله: أمرك قاض بقطع، أو رجم إلخ ،التعليل بوجوب طاعة ولي الأمر.  وفي ط: عن الحموي ؛أن صاحب البحر ذكر ناقلا عن أئمتنا أن طاعة الإمام في غير معصية واجبة.    (رد المحتار علی الدر المختار:5/422 )
و قال العلامۃ الکاسانی رحمہ اللہ:وإذا أمر عليهم يكلفهم طاعة الأمير فيما يأمرهم به وينهاهم عنه؛ لقول الله تبارك وتعالى : {يا أيها الذين آمنوا أطيعوا الله وأطيعوا الرسول وأولي الأمر منكم} [النساء: 59] وقال  عليه الصلاة والسلام : "اسمعوا وأطيعوا، ولو أمر عليكم عبد حبشي أجدع، ما حكم فيكم بكتاب الله تعالى"؛ ولأنه نائب الإمام، وطاعة الإمام لازمة كذا طاعته؛ لأنها طاعة الإمام، إلا أن يأمرهم بمعصية، فلا تجوز طاعتهم إياه فيها؛ لقوله  عليه الصلاة والسلام : "لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق".(بدائع الصنائع:7/99)
و فی عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری:عن عمر رضي الله تعالى عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:السمع والطاعة حق ما لم يؤمر بالمعصية، فإذا أمر بمعصية فلا سمع، ولا طاعة.
و قال العلامۃ العینی رحمہ اللہ:قوله: (السمع) : أي: إجابة قول الأمير، إذ طاعة أوامرهم واجبة ما لم يأمر بمعصية، وإلا فلا طاعة لمخلوق في معصية الخالق، ويأتي من حديث علي بلفظ: لا طاعة في معصية، إنما الطاعة في المعروف…وذكر عياض: أجمع العلماء على وجوب طاعة الإمام في غير معصية، وتحريمها في المعصية.(عمدۃ القاری:14/221)

محمد عثمان یوسف

دارالافتاءجامعۃ الرشید کراچی

27 ذوالقعدہ 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عثمان یوسف

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب