73559 | جنازے کےمسائل | جنازے کے متفرق مسائل |
سوال
مفتی صاحب ! نماز جنازہ کی طرح نماز عید بھی مسجد میں خلاف سنت ہے۔اس کراہت سے کس طرح بچا جائے؟
1۔ کیا ہمارے دیار میں 52 ڈگری سینٹی گریڈ گرمی مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے کا شرعی عذر ہے؟ جبکہ مسجد سے باہر کوئی سایہ دار جگہ نہ ہو۔
2۔نہ جنازہ گاہ ہے نہ عید گاہ نہ کوئی پاک صاف جگہ۔جیسے ہمارے گاؤں میں میدان کا اکثر حصہ گوبر اور لید سے بھرا ہوا ہے۔نماز جنازہ میں اکثر لوگ تازہ وضو کرکے گیلے پاؤں، گیلے چپلوں کے ساتھ ہوتے ہیں،نماز کے باطل ہونے کا غالب گمان ہے ۔
کیا مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے کا مذکورہ بالا عذر شرعا معتبر ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
۔نماز عید و نماز جنازہ اصلا تو دونوں میدان کی نمازیں ہیں ، لہٰذا عید کی بابت تو حکم یہ ہے کہ اگر کسی علاقے میں ایسی کھلی جگہ یعنی میدان یا عید گاہ موجود ہے کہ وہاں سب لوگ سما سکیں تو عید کی نماز وہیں ادا کرنی چاہیے ،جو شخص یہ سہولت موجود ہونے کے وباوجود نماز عید کے لیے وہاں نہ جائے تو وہ سنت کو چھوڑنے والا ہوگا۔ لیکن اگر میدان ہی نہیں ہے ، یا ہے تو صحیح ،لیکن ایسا ہے کہ سب لوگ اس میں نہیں آسکتے ،جیسا کہ آج کل عام طور پر ہمارے شہروں میں گنجان آبادیاں ہیں ، تو پھر مسجد میں بھی عید کی نماز پڑھنا درست ہے ،ایسی صورت میں یہ عمل خلاف سنت بھی نہیں اور اس میں کراہت بھی نہیں ۔
2۔ رہی بات مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے کی تو مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے کے بارے میں چار اقوال ہیں :
(1)بہرحال مکروہ تحریمی ہے،خواہ جنازہ مسجد کے اندر ہو یا باہر۔
(2)مکروہ تحریمی سے کم اور تنزیہی سے زیادہ ،دونوں کے درمیان ایک مستقل مرتبہ ہے جس کو "اساءۃ" کہتے ہیں۔
(3)جنازہ مسجد سے باہر ہو تو مسجد کے اندر نماز پڑھنے میں کوئی کراہت نہیں۔
(4)جنازہ مسجد کے اندر ہو یا باہر بہرحال مکروہ تنزیہی ہے۔
احسن الفتاوی میں حضرت مفتی رشید احمد لدھیانوی صاحب رحمہ اللہ تعالی نے دلائل کے لحاظ سے اسی قول کراہت تنزیہیہ کو راجح قرار دیا ہے،علی أنہ أوسط و أعدل و أوفق بالروایات المختلفۃ.
چونکہ بہت سے فقہاء عظام رحمھم اللہ نے کراہت تنزیہیہ کی طرح کراہت تحریمیہ کے قول کی بھی تصحیح فرمائی ہے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا معمول بھی یہی تھا کہ نماز جنازہ مسجد سے باہر کھلی جگہ میں ادا فرماتے تھے ۔ لہٰذا عام حالات میں جب کہ کوئی بڑا حرج نہ ہو تو حتی الامکان کوشش یہی ہونی چاہیے کہ جنازہ مسجد سے باہر ہی ادا کیا جائے، البتہ چونکہ ایک روایت پر عام حالات میں بھی مسجد کے اندر جنازہ پڑھنا درست اور صرف خلاف اولی ہے اس لیے اگر کبھی مسجد میں جنازہ کسی عذر کی وجہ سے پڑھا جائے تو ایسے میں ایسا کرنا خلاف اولی بھی نہیں ۔
مذکورہ تفصیل کی روشنی میں سوال میں ذکر اعذار کا حکم یہ ہے کہ اگر گرمی بہت شدید ہواور نمازیوں کو سخت تکلیف ہوتی ہو (جیسا کہ سوال میں مذکور ہے) یا یہ کہ میدان تو ہو لیکن وہاں نجاست سے تلوث کا قوی امکان ہو تو ایسی صورت میں جبکہ کوئی اور جگہ بھی میسر نہ ہو تو مسجد میں نماز جنازہ پڑھنا بلا کراہت جائز ہے ۔
تاہم عذر یا بغیر عذر دونوں صورتوں میں مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ محراب سے باہر جنازہ رکھنے کی جگہ بنائی جائے جہاں میت رکھ کر ،امام اور کچھ مقتدی بھی مسجد سے باہر کھڑے ہوسکیں۔
نیز یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ مذکورہ بالا تمام تر تفصیل اس مسئلہ کی نوعیت کے اعتبار سے لکھی گئی ہے، لیکن سنن ابی داؤد کی حدیث کے مطابق چونکہ مسجد میں میت رکھ کر نماز جنازہ پڑھنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تنبیہ فرمائی ہے کہ ایسے میں مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے والے ثواب سے محروم رہتے ہیں ،لہٰذا احوط یہی ہے کہ حتی الامکان کوشش کرکے جنازہ مسجد سے باہر ہی پڑھا جائے ۔اس کے لیے اپنے میدان میں سایہ دار درختوں کا بھی انتظام کرنا چاہیے اور یہ کوشش بھی کرنی چاہیے کہ اس میدان کو صاف کرواکے اس طرح کی عبادات کے لیے اسے فارغ رکھا جائے۔
حوالہ جات
روی الامام ابو داؤد رحمہ اللہ عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ ،قال :قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :من صلی علی جنازۃ فی المسجد ، فلا شیء لہ "وفی روایۃ " فلا شیء علیہ ".
(سنن ابی داؤد:3191)
قال العلامۃ ابن نجیم رحمہ اللہ: لأن التوجه إلى المصلى مندوب كما أفاده في التجنيس، وإن كانت صلاة العيد واجبة حتى لو صلى العيد في الجامع، ولم يتوجه إلى المصلى فقد ترك السنة.
(البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (2/ 171)
قال ابن نجیم رحمہ اللہ:قوله:( ولا في مسجد) :لحديث أبي داود مرفوعا:"من صلى على ميت في المسجد فلا أجر له" وفي رواية ،فلا شيء له ،أطلقه فشمل ما إذا كان الميت والقوم في المسجد أو كان الميت خارج المسجد ،والقوم في المسجد، أو كان الإمام مع بعض القوم خارج المسجد والقوم الباقون في المسجد، أو الميت في المسجد، والإمام، والقوم خارج المسجد ،وهو المختار،خلافا لما أورده النسفي، كذا في الخلاصة. وهذا الإطلاق في الكراهة بناء على أن المسجد إنما بني للصلاة المكتوبة وتوابعها من النوافل والذكر وتدريس العلم. وقيل: لا يكره إذا كان الميت خارج المسجد، وهو مبني على أن الكراهة لاحتمال تلويث المسجد والأول هو الأوفق لإطلاق الحديث، كذا في فتح القدير، فما في غاية البيان والعناية من أن الميت وبعض القوم إذا كانا خارج المسجد والباقون فيه لا كراهة اتفاقا، ممنوع. (البحر الرائق:2/201)
قال ابن الھمام رحمہ اللہ:قوله:( ولا يصلى على ميت في مسجد جماعة): في الخلاصة، مكروه، وسواء كان الميت، والقوم في المسجد، أو كان الميت خارج المسجد، والقوم في المسجد، أو كان الإمام مع بعض القوم خارج المسجد، والقوم الباقون في المسجد، أو الميت في المسجد والإمام والقوم خارج المسجد. هذا في الفتاوى الصغرى. قال: هو المختار خلافا لما أورده النسفي رحمه الله ،اهـ. وهذا الإطلاق في الكراهة بناء على أن المسجد إنما بني للصلاة المكتوبة وتوابعها من النوافل والذكر وتدريس العلم.وقيل لا يكره إذا كان الميت خارج المسجد، وهو بناء على أن الكراهة لاحتمال تلويث المسجد، والأول هو الأوفق لإطلاق الحديث الذي يستدل به المصنف، ثم هي كراهة تحريم أو تنزيه؟ روايتان، ويظهر لي أن الأولى كونها تنزيهية.... وعلى كراهة التنزيه كما اخترناه فقد لا يلزم الخلاف لأن مرجع التنزيهية إلى خلاف الأولى فيجوز أن يقولوا: إنه مباح في المسجد، وخارج المسجد أفضل فلا خلاف.ثم ظاهر كلام بعضهم في الاستدلال أن مدعاهم الجواز وأنه خارج المسجد أفضل فلا خلاف حينئذ. (فتح القدیر:2/128)
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ:(وكرهت تحريما) وقيل :(تنزيها في مسجد جماعة هو) :أي الميت (فيه) وحده أو مع القوم.(واختلف في الخارجة) عن المسجد وحده أو مع بعض القوم (والمختار الكراهة) مطلقا خلاصة.
وقال العلامۃ الشامی رحمہ اللہ:قوله:( مطلقا) أي في جميع الصور المتقدمة كما في الفتح عن الخلاصة. وفي مختارات النوازل سواء كان الميت فيه، أو خارجه هو ظاهر الرواية. وفي رواية لا يكره إذا كان الميت خارج المسجد، قوله:( بناء على أن المسجد إلخ) :أما إذا عللنا بخوف تلويث المسجد فلا يكره؛ إذا كان الميت خارج المسجد وحده، أو مع بعض القوم ،اهـ ح. قال في شرح المنية: وإليه مال في المبسوط، والمحيط، وعليه العمل، وهو المختار. اهـ.قلت: بل ذكر في غاية البيان والعناية أنه لا كراهة فيها بالاتفاق، لكن رده في البحر. وأجاب في النهر…وبهذا التقرير ظهر أن الحديث مؤيد للقول المختار من إطلاق الكراهة الذي هو ظاهر الرواية كما قدمناه، فاغتنم هذا التحرير.
(رد المحتار علی الدر المختار:2/225 )
وقا ل أیضا:إنما تكره في المسجد بلا عذر، فإن كان فلا، ومن الأعذار المطر كما في الخانية، والاعتكاف كما في المبسوط…وانظر هل يقال: إن من العذر ما جرت به العادة في بلادنا من الصلاة عليها في المسجد؛ لتعذر غيره، أو تعسره بسبب اندراس المواضع التي كان يصلي عليها فيها، فمن حضرها في المسجد إن لم يصل عليها مع الناس لا يمكنه الصلاة عليها في غيره، ولزم أن لا يصلي في عمره على جنازة، نعم قد توضع في بعض المواضع خارج المسجد في الشارع فيصلى عليها، ويلزم منه فسادها من كثير من المصلين لعموم النجاسة ،وعدم خلعهم نعالهم المتنجسة مع أنا قدمنا كراهتها في الشارع. وإذا ضاق الأمر اتسع، فينبغي الإفتاء بالقول بكراهة التنزيه الذي هو خلاف الأولى ؛كما اختاره المحقق ابن الهمام، وإذا كان ما ذكرناه عذرا، فلا كراهة أصلا، والله تعالى أعلم. (رد المحتار علی الدر المختار:2/226)
وقال شیخی زادہ رحمہ اللہ:وقال (وتكره في مسجد جماعة إن كان الميت فيه) أي في المسجد خلافا للشافعي (وإن كان) الميت (خارجه) أي المسجد وقام الإمام خارج المسجد ومعه صف والباقي في المسجد، كذا في أكثر الكتب، لكن في الإصلاح ولو كانت الجنازة والإمام وبعض القوم خارج المسجد وباقي القوم في المسجد، كما هو المعهود في جوامعنا ،لا يكره باتفاق أصحابنا، وإنما الاختلاف لو كانت الجنازة وحدها خارج المسجد والإمام والقوم في المسجد، وكلام المصنف لا يدل على هذا تدبر (اختلف المشايخ) فقيل: لا يكره وهو رواية النوادر عن أبي يوسف لأنه ليس فيه احتمال تلويث المسجد وقيل: يكره لأن المسجد أعد لأداء المكتوبات فلا يقام فيه غيرها إلا لعذر. (مجمع الانھر:1/185)
وقال أبو المعالي برهان الدين محمود رحمہ اللہ: ثم هذه المسألة على أربعة أوجه؛ إن كانت الجنازة والإمام والقوم في المسجد فالصلاة مكروهة بالاتفاق.وإن كان الإمام مع بعض القوم، والجنازة خارج المسجد وباقي القوم في المسجد؛ ذكر نجم الدين النسفي في "فتاويه" : أن الصلاة غير مكروهة بالاتفاق، وكثير من مشايخنا ذكروا في هذه الصورة اختلاف المشايخ؛ بعضهم قالوا: يكره، وإليه مال الشيخ الإمام شمس الأئمة الحلواني، والشيخ الإمام الزاهد ركن الإسلام الصفار رحمهما الله، وحكي أن هذه الواقعة وقعت في زمن الشيخ الإمام شمس الأئمة الحلواني، فجلس ولم يصل، وتابعه من كان معه في مسجد الأنباء، ثم زجر الناس على المنبر أشد الزجر، وقال: هذه بدعة، وكان هذا القائل يعتمد المعنى الأول في الوجه الأول. وبعض مشايخنا قالوا: لا تكره الصلاة في هذه الصورة، وكان هذا القائل اعتمد المعنى الثالث في الوجه الأول.وإن كانت الجنازة وحدها خارج المسجد، والقوم مع الإمام في المسجد فمن اعتبر المعنى الأول يقول بالكراهية ههنا، ومن اعتبر المعنى الثالث لا يقول بالكراهية ههنا. (المحیط البرہانی فی الفقہ النعمانی:5/307)
محمد عثمان یوسف
دارالافتاءجامعۃ الرشید کراچی
29 ذوالقعدہ 1442ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد عثمان یوسف | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب |