021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
والداگرزندگی میں بعض اولادکو کچھ دیدے تو کیا اس میں بھی میراث جاری ہوگی؟
73634میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

ہم تین بھائی اوردو بہنیں ہیں ،والد صاحب نے اپنی حیات میں ایک مکان اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کو دیدیا تھا اورایک دکان مجھے اوربڑے بھائی کو دی تھی اورکچھ رقم ایک بیٹی کو دی تھی اوردوسری بیٹی جوکہ مالی لحاظ سے کافی بہترہے، اس کو کچھ بھی نہیں دیاتھا،2020میں والدصاحب وفات پاگئے تو باقی  جائیداد شرعی طورپر سب ورثہ میں تقسیم کی گئی ۔

         اب سوال یہ ہے کہ کیا اس معاملے میں میرے ذمہ کچھ باقی ہے ؟ تاکہ میں اسے واپس کرکے آخرت کے مواخذے سے بچ سکوں ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

 قرآن حدیث  کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہمیراث  “کا تعلق آدمی کے مرنے کے بعدچھوڑے  ہوئے ترکہ سے ہے،لہذامرحوم نے اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کو اپنی زندگی میں جومکان عطیہ کیا تھا اوراسی طرح ایک بیٹی کوجو رقم عطیہ کی تھی اگر  مرحوم نے یہ چیزیں مالکانہ حقوق کے ساتھ عملاً قابض بناکران کو  دی تھی تو یہ ہبہ درست ہوا   اور مذکورہ مکان بیٹے کااوررقم بیٹی کی ملکیت ہوگئی تھی،لہذا یہ دوچیزیں  مرحوم کے ترکہ میں شامل نہیں ہوں گی،لیکن اس ہدیہ کے باوجود مرحوم  کامذکورہ بیٹا اورمذکورہ  بیٹی دوسرے ورثاء کے ساتھ باقی ترکہ میں اپنے شرعی حصوں کے حساب سے شریک ہوں گے، اس ہدیہ کی وجہ سے ان کی میراث نہ ختم کی جاسکتی ہے اورنہ اس میں کمی کی جاسکتی ہے۔

جہاں تک مرحوم کے ایک ہی دکان اپنے دوبیٹوں کو اپنی زندگی میں عطیہ کرنے کا حکم ہے تو وہ دکان اگر ناقابلَ تقسیم تھی یعنی اتنی بڑی نہیں تھی کہ تقسیم کے بعد اس سے فائدہ حاصل کیاجاسکے تو پھر یہ ہبہ بھی سابقہ ہبہ کی طرح درست ہوا ، بشرطیکہ مرحوم نے یہ دکان مالکانہ حقوق کے ساتھ عملاً قابض بناکران کو دیا ہو،صرف کاغذی کاروائی نہ کی ہو۔ اوراگر وہ دکان قابلَ تقسیم تھی یعنی اتنی بڑی تھی کہ تقسیم کے بعدبھی اس سے  فائدہ حاصل کیاجاسکے اور والد نے تقسیم کے بغیرہبہ کرکے دیاہو تو پھر یہ قابلِ تقسیم مشترک چیز کا ہبہ ہونے کی وجہ سے شرعا ًدرست نہیں ،لہذا اس صورت میں یہ دکان مرحوم کے ترکہ میں شامل ہوکر ترکہ کی دیگر چیزوں کی طرح تمام ورثہ میں تقسیم ہوگی ۔

واضح رہے کہ زندگی  میں  اولاد کو کچھ دینا ہبہ ہے، میراث کی تقسیم نہیں ،کیونکہ میراث موت کے بعدتقسیم کی جاتی ہے۔کسی کو کوئی چیز ہبہ کرنا  اورنہ کرنا یہ بندے کا اختیاری عمل ہے ، اس میں  وہ شرعاً  مجبورنہیں،  تاہم اگرکوئی  اپنی خوشی سے  اولاد کو  زندگی میں کچھ دینا چاہے تو شرعاً  اس کی بھی  اجازت ہے اوراس  میں  پھر  افضل یہ  ہے کہ تمام  بیٹوں  اور بیٹیوں کو برابر  دیاجائے اوران  میں بلاشرعی وجہ تفریق  نہ کی جائے ۔

مسئولہ صورت میں آپ کے والدصاحب نے اولاد میں سےتین کو توعطیہ کیا مگرچوتھی بیٹی جو بقول سائل مالی لحاظ سے کافی بہترتھی کچھ نہیں دیا،افضل یہ تھاکہ آپ کے والد صاحب تمام  بیٹوں اوربیٹیوں کودیتے اورکسی ایک کوبھی محروم نہ کرتے اوربرابرسرابر دیتے،ان  میں تفریق  نہ کرتے ، تاہم  اگران کی چوتھی بیٹی کو تکلیف دینے  اورمحروم کرنےکی  نیت   نہ تھی بلکہ دیگراولادکےفقراورچوتھی بیٹی کی مالداری کی وجہ سے انہوں نے ایساکیاکہ تین کو دیاورایک کونہیں دیا تو امیدہے کہ ان کا یہ عمل آخرت میں قابلِ مواخذہ نہیں ہوگا۔

اب آپ کےاصل سوال کا جواب یہ ہے کہ جب والد صاحب کی باقی ماندہ میراث آپ نے شرعی حصص کےحساب سےورثہ میں تقسیم کردی اورمذکورہ بالاتفصیل کے مطابق دکان کا ہبہ بھی صحیح ہوگیا تھا تو آپ کے ذمہ اب کچھ بھی نہیں ہے ، آپ بری الذمہ ہیں اوراگردکان کا ہبہ تفصیل بالاکی روشنی میں صحیح نہیں ہوا تھا تو پھر آپ کے ذمہ اس دکان کو ورثہ میں ان کے شرعی حصوں کے حساب سےتقسیم کرنا لازم ہوگا، اورآپ کو بھی اس میں اپنا شرعی حصہ پائیں گے۔

حوالہ جات
وفی الهداية في شرح بداية المبتدي (3/ 222)
الهبة عقد مشروع ۔۔"وتصح بالإيجاب والقبول والقبض" أما الإيجاب والقبول فلأنه عقد، والعقد ينعقد بالإيجاب، والقبول، والقبض لا بد منه لثبوت الملك.۔۔۔۔ ولنا قوله عليه الصلاة والسلام: "لا تجوز الهبة إلا مقبوضة"
فی تحفة الفقهاء (3 / 162):
وكذا لو وهب دارا فيها متاع للواهب أو ظرفا فيه متاع للواهب دون المتاع أو وهب دابة عليها حمل للواهب دون الحمل وقبضها فإنه لا يجوز ولا يزول الملك عن الواهب إلى الموهوب له لأن الموهوب غير متميز عما ليس بموهوب فيكون بمنزلة هبة المشاع، ولو قسم المشاع وسلم ما وهب جاز،وكذا في هذه الفصول إذا سلم الدار فارغة عن المتاع،ولو وهب دارا من رجلين أو كرا من طعام أو ألف درهم أو شيئا مما يقسم فإنه لا يجوز عند أبي جنيفة وعندهما جائز،والحاصل أن عند أبي حنيفة الشيوع متى حصل عند القبض فإنه يمنع صحة الهبة وإن حصل القبض في غير مشاع جاز فجوز هبة الاثنين من الواحد ولم يجوز هبة الواحد من الاثنين،واعتبر أبو يوسف ومحمد في فساد العقد حصول الشيوع في الطرفين جميعا فجوزا هبة الواحد من اثنين وهبة الاثنين من الواحد،ولو وهب عبدا من رجلين أو شيئا مما لا يقسم جاز بالإجماع لأنه لا عبرة للشيوع فيما لا يحتمل القسمة في باب الهبة.
 
وفی بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (6 / 121):
ولو وهب شيئا ينقسم من رجلين كالدار والدراهم والدنانير ونحوها وقبضاه لم يجز عند أبي حنيفة وجاز عند أبي يوسف ومحمد وأجمعوا على أنه لو وهب رجلان من واحد شيئا ينقسم وقبضه أنه يجوز فأبو حنيفة يعتبر الشيوع عند القبض وهما يعتبرانه عند العقد والقبض جميعا فلم يجوز أبو حنيفة هبة الواحد من اثنين لوجود الشياع وقت القبض وهما جوزاها لأنه لم يوجد الشياع في الحالين بل وجد أحدهما دون الآخر.
وفی العناية شرح الهداية - (ج 12 / ص 289)
قال : ( وإذا وهب اثنان من واحد دارا جاز ) ؛ لأنهما سلماها جملة وهو قد قبضها جملة فلا شيوع ( وإن وهبها واحد من اثنين لا يجوز عند أبي حنيفة ، وقالا يصح ) ؛ لأن هذه هبة الجملة منهما ، إذ التمليك واحد فلا يتحقق الشيوع كما إذا رهن من رجلين .وله أن هذه هبة النصف من كل واحد منهما ، ولهذا لو كانت فيما لا يقسم فقبل أحدهما صح ، ولأن الملك يثبت لكل واحد منهما في النصف فيكون التمليك كذلك ؛ لأنه حكمه ، وعلى هذا الاعتبار يتحقق الشيوع .
وفی الجوهرة النيرة على مختصر القدوري (1 / 277):
(قوله: والشفعة واجبة في العقار، وإن كان مما لا يقسم) كالحمام، والبئر، والبيت الصغير

الجمع بين الصحيحين البخاري ومسلم (1/ 308):

عن النعمان بن بشير أنه قال إن أباه أتى به رسول الله {صلى الله عليه وسلم} فقال إني نحلت ابني هذا غلاماً كان لي فقال رسول الله {صلى الله عليه وسلم} أكل ولدك نحلته مثل هذا فقال لا فقال رسول الله {صلى الله عليه وسلم} فارجعه.

وفی شرح معاني الآثار - الطحاوي (4/ 84):

 فقالوا ينبغي للرجل أن يسوي بين ولده في العطية ليستووا في البر ولا يفضل بعضهم على بعض فيوقع ذلك له الوحشة في قلوب المفضولين منهم.

وفی بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع - (ج 13 / ص 316)

  وأما) كيفية العدل بينهم فقد قال أبو يوسف العدل في ذلك أن يسوي بينهم في العطية ولا   يفضل الذكر على الأنثى وقال محمد العدل بينهم أن يعطيهم على سبيل الترتيب في المواريث   للذكر مثل حظ الأنثيين كذا ذكر القاضي الاختلاف بينهما في شرح مختصر الطحاوي وذكر محمد في الموطإ ينبغي للرجل أن يسوي بين ولده في النحل ولا يفضل بعضهم على بعض. وظاهر هذا يقتضي أن يكون قوله مع قول أبي يوسف وهو الصحيح۔
و فی حاشية ابن عابدين (سعید) (5/ 696)
وفي الخانية لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني وعليه الفتوى .

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

       1/12/1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب