021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زیر استعمال اشیاءکی اولاد کے لیے وصیت کرنے کا حکم
73667وصیت کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

ایک مسئلہ یہ ہے کہ جو سامان مثلا اے سی ، فریج ، فرنیچر و دیگر اشیاء جو ابھی ہمارے زیر استعمال ہیں یا زیور ، تو بحیثیت ماں کیا اپنی زندگی میں بچوں کو بتا سکتی ہوں کہ کونسی چیز کونسا بچہ لے ۔ اپنی خوشی سے جسکو چاہوں ، دے سکتی ہوں ؟ اس میں کوئی قباحت تو نہیں ؟

میرے شوہر نے اپنی ریٹائرمنٹ سے ملنے والے پیسوں سے 15 لاکھ کی ایک دکان خریدی ہے ۔ اس کے متعلق بھی بتائیں کہ کیا سب بچوں اور ماں کا حصہ اس میں ہو گا یا اپنی مرضی سے جو چاہیں یا جس کو چاہیں ، دے سکتے ہیں ۔ کسی اولاد کو تحفۃًبھی دی جا سکتی ہے یا پھر اس کے بھی حصے ہوں گے ؟

تنقیح :تنقیح کرنے پر معلوم ہوا کہ شوہر حیات ہیں ۔سائل نے بتایا کہ زیور ان کی بیوی کی ملکیت ہے ، جبکہ گھر کا دیگر سامان اے سی ، فریج وغیرہ انہوں نےخود خریدا ہےاور اس سامان کے مالک وہ خود ہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

وصیت کرنے کے حوالے سے شرعی ضابطہ یہ ہے کہ وصیت اپنی ملکیت سے متعلق کی جا سکتی ہے، نیز وصیت صرف غیر وارث کے حق میں کی جا سکتی ہے ۔ وارث کے حق میں  وصیت معتبر نہیں ، لہذاصورت مسئولہ میں جو سامان آپ لوگوں کے زیر استعمال ہے، وہ چونکہ آپ کے شوہر کی ملکیت ہے ، لہذا آپ کے لیے اس کے حوالے سے اولاد کے حق میں کوئی وصیت کرنا شرعاً درست اور قابل اعتبار نہیں ، البتہ اگر آپ اپنی زندگی میں ذاتی ملکیت کی کوئی چیزجیسے زیور اولادمیں سے کسی کو ہبہ ( گفٹ ) کرنا چاہیں تو کرسکتی ہیں ۔یہی حکم گھر کے دیگر سامان کا ہےکہ اس کے مالک بھی اگر آپ کے شوہرہیں تو وہ  اس سازو سامان کی اولاد کے حق میں تو  وصیت نہیں کر سکتے ، البتہ چاہیں تو اولاد میں سے کسی کو ہبہ کر سکتے ہیں ۔ واضح رہے کہ ہبہ کے تام ہونے کے لیے ضروری ہے کہ جس شخص کو چیز ہبہ کی جا رہی ہے ، وہ اس چیز پر قبضہ کر لے ، لہذا ہبہ کرنے کی صورت میں یہ ضروری ہے کہ آپ جو چیز جس بچے کو ہبہ کرنا چاہیں ، اسے اس چیز کا قبضہ اس طور پر دے دیں کہ وہ چیز آپ کے استعمال میں نہ رہے ۔

آپ کے شوہر نے ریٹائرمنٹ کے پیسوں سے جو دکان خریدی ہے ، وہ دکان ان کی ملکیت ہے اور اس میں تصرف کرنے کا وہ پورا اختیار رکھتے ہیں ۔ وہ چاہیں تو اپنی زندگی میں اولاد میں سے کسی کو تحفۃ دے دیں، بشرطیکہ دیگر ورثاء کو محروم کرنے کا ارادہ نہ ہو۔ چاہیں تو بیچ کر اولاد میں پیسے تقسیم کر دیں ۔اپنی زندگی میں میراث تقسیم کرنے میں بہتر یہ ہے کہ سب کو برابر برابر حصہ دیا جائے ۔ اگر میراث کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بیٹے کو بیٹی کی نسبت دگنا حصہ دیا جائے تو اس کی بھی گنجائش ہے  ، البتہ اگر وہ دکان میں کسی قسم کا تصرف نہیں کرتے ہیں یعنی کسی کو بیچتے ہیں ، نہ ہبہ کرتے ہیں تو ان کی وفات کے بعد وہ دکان ان کے ترکہ میں شمار کی جائے گی اور شرعی ہدایات کے مطابق تمام ورثاء کا اس میں حصہ ہو گا ۔

حوالہ جات

الدرالمختار- (6/655)

 ( ولا لوارثه وقاتله مباشرة ) لا تسبيبا كما مر ( إلا بإجازة ورثته ) لقوله عليه الصلاة والسلام لا وصية لوارث إلا أن يجيزها الورثة يعني عند وجود وارث آخر كما يفيده آخر الحديث وسنحققه ( وهم كبار ) عقلاء فلم تجز إجازة صغير ومجنون وإجازة المريض كابتداء وصية ولو أجاز البعض ورد البعض جاز على المجيز بقدر حصته۔
الفتاوى الهندية (6/ 90)
ولا تجوز الوصية للوارث عندنا إلا أن يجيزها الورثة، ولو أوصى لوارثه ولأجنبي صح في حصة الأجنبي ويتوقف في حصة الوارث على إجازة الورثة إن أجازوا جاز وإن لم يجيزوا بطل ولا تعتبر إجازتهم في حياة الموصي حتى كان لهم الرجوع بعد ذلك، كذا في فتاوى قاضي خان.
الفتاوى الهندية - (4 / 377)
ولا يتم حكم الهبة إلا مقبوضة ويستوي فيه الأجنبي والولد إذا كان بالغا، هكذا في المحيط.
والقبض الذي يتعلق به تمام الهبة وثبوت حكمها القبض بإذن المالك، والإذن تارة يثبت نصا
وصريحا وتارة يثبت دلالة.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 687)
وشرائط صحتها (في الموهوب أن يكون مقبوضا غير مشاع مميزا غير مشغول) كما سيتضح

عبدالدیان اعوان

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

3 ذو الحج 1442

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبدالدیان اعوان بن عبد الرزاق

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب