021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دورانِ ملازمت فوت ہونے والے ملازم کو جو رقم کمپنی اپنی طرف سےدیتی ہےوہ میراث نہیں،بلکہ عطیہ ہوتی ہے
73692وصیت کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

عبدالعزیز ولدخیال اعظم خان ابوظہبی گیا اوروہاں کمپنی میں کام کرنے لگا، کچھ عرصہ کے بعددورانِ ملازمت ابوظہبی میں ہی وہ فوت ہوگیا،کمپنی والوں نے عبد العزیز ولد خیال اعظم خان کو دو لاکھ درہم دیدیئے ،مرحوم کی ایک بیوی اورایک بیٹی، ماں اور چاربھائی ہیں ،کمپنی والوں نے بیوہ کو 25000درہم،بیٹی کو 131250درہم اوروالدہ صاحبہ کو 43750درہم دیئے ۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ

١۔ عبد العزیزخان ولد خیال اعظم خان کو جو پیسےملے ہیں یہ میراث ہے یانہیں ؟

۲۔ ان پیسوں میں چار بھائیوں کا حصہ ہے یانہیں؟

۳۔ ماں کو جو پیسے ملے ہیں کیا وہ ان پیسوں کی مالکہ ہے یا نہیں ؟

۴۔اگرماں اپنی رضامندی سے ایک بیٹے کو وہ سارے پیسے دیدے تو کیا وہ ایسا کرسکتی ہے یا نہیں ؟

۵۔ اگر ماں ایک بیٹے کو پیسے دیدے ، تو کیا ماں کے فوت ہونے کے بعد باقی تین بھائی اس بھائی سے ان پیسوں کا مطالبہ کرسکتے ہیں یا نہیں ؟

سائل نے فون پر بتایا کہ یہ رقم عبد العزیز کی تنخواہ سے نہیں کاٹی گئی تھی بلکہ کمپنی نے اپنی طرف سےدی ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

(١،۲)۔مذکورہ رقم (دو لاکھ درہم)کمپنی  کی طرف سے عطیہ ہے؛ لہذاکمپنی کی طرف سےیہ رقم جس  جس کے نام پر جاری ہوئی ہےوہی اس کا مالک ہے، اس میں وراثت جاری نہیں ہوگی ،لہذابھائیوں کا اس رقم میں کوئی حق نہیں ۔

(۳)۔ جی ہاں وہ اس رقم کی مالک ہے۔

(۴)۔ماں کا بیٹوں کو کچھ دینا میراث نہیں بلکہ ہدیہ ہے ،کیونکہ میراث موت کے بعدتقسیم کی جاتی ہے۔کسی کو کوئی چیز ہبہ کرنا  اورنہ کرنا یہ بندے کا اختیاری عمل ہے ، اس میں  وہ شرعاً  مجبورنہیں،  تاہم اگرکوئی  اپنی خوشی سے  اولاد کو  زندگی میں کچھ دینا چاہے تو شرعاً  اس کی بھی  اجازت ہے اوراس  میں  پھر  افضل یہ  ہے کہ تمام  بیٹوں  اور بیٹیوں کو برابر  دیاجائے اوران  میں تفریق  نہ کی جائے ،یا کم از کم میراث کے حصوں کے مطابق تقسیم کی جائےکہ لڑکے کو دو لڑکیوں کے بقدرحصہ دیاجائے۔سارے پیسے ایک کو دینا اوردوسروں کو محروم کرنا اچھا نہیں ہے۔البتہ اگرکسی کو محروم کرنےکی نیت نہ ہواوران میں سےکوئی زیادہ حاجت مند ہو یا زیادہ خدمت گزارہو یا عالم ہو تو اس بناء پر اگروالدہ رقم دینے میں  کچھ تفریق کردے اوراِن کو کچھ زیادہ دیدےتو ایسے کرناجائز ہوگا۔

(۵)۔ماں کو ایسا کرنانہیں چاہئے، بلکہ سب کو دیناچاہیے، جیسے کہ سابقہ جواب میں گزرا، تاہم اگرماں ایساکرلیتی ہے اورساری رقم ایک بیٹے کو یدیتی ہے اوراس پر اس بیٹے کا قبضہ بھی کرادیتی ہے تو اس طرح کرنے سےوہ بیٹا اس رقم کا مالک بن جائے گا،اوپھر والدہ کی فوت ہونے کے بعد باقی تین بھائی اس رقم سے اپنے حصوں کا مطالبہ نہیں کرسکیں گے۔

حوالہ جات
السنن الكبرى للبيهقي وفي ذيله الجوهر النقي - (ج 6 / ص 176)
عن حصين عن عامر قال سمعت النعمان بن بشير يقول وهو على المنبر : أعطانى أبى عطية فقالت له عمرة بنت رواحة : لا أرضى حتى تشهد رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال فأتى النبى -صلى الله عليه وسلم- فقال : إنى أعطيت ابن عمرة بنت رواحة عطية وأمرتنى أن أشهدك يا رسول الله قال :« أعطيت سائر ولدك مثل هذا ». قال : لا قال :« فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم ». قال فرجع فرد عطيته. رواه البخارى فى الصحيح عن حامد بن عمر وأخرجه مسلم من وجهين آخرين عن حصين.
السنن الكبرى للبيهقي وفي ذيله الجوهر النقي - (ج 6 / ص 177)
عن ابن عباس قال قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم- :« سووا بين أولادكم فى العطية فلو كنت مفضلا أحدا لفضلت النساء ».
وفی خلاصة الفتاوی ج: 4ص: 400
رجل لہ ابن وبنت اراد ان یھب لھما فالافضل ان یجعل للذکرمثل حظ الانثیین عندمحمد وعند ابی یوسف رحمہ اللہ بینھماسواء ھو المختارلورود الآثار.
رد المحتار - (ج 24 / ص 42)
وفي الخانية لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب ، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار ، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني وعليه الفتوى ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم.
رد المحتار - (ج 24 / ص 42)
( قوله وعليه الفتوى ) أي على قول أبي يوسف : من أن التنصيف بين الذكر والأنثى أفضل من التثليث الذي هو قول محمد رملي. 
 
وفي المجلة :
"مادة 837  تنعقد  الهبة  بالإيجاب  والقبول  وتتم بالقبض." (ص: 162ط:كارخانه تجارت كتب)
’’احکامِ میت‘‘ میں ہے:
’’پینشن جب تک وصول نہ ہوجائے ملک میں داخل نہیں ہوتی، لہٰذا میت کی  پینشن کی جتنی رقم اس کی موت کے بعد وصول ہو وہ ترکہ میں شمار نہ ہوگی، کیوں کہ ترکہ وہ ہوتا ہے جو میت کی وفات کے وقت اس کی ملکیت  میں ہو، اور یہ رقم اس کی وفات تک اس کی ملکیت میں نہیں آئی تھی؛ لہٰذا ترکہ میں جو چار حقوق واجب ہوتے ہیں وہ اس رقم میں واجب نہیں ہوں گے، اور میراث بھی اس میں جاری نہ ہوگی، البتہ حکومت (یا وہ کمپنی جس سے پینشن ملی ہے) جس کو یہ رقم دے دے گی وہی اس کا مالک ہوجائے گا؛ کیوں کہ یہ ایک قسم کا انعام ہے، تنخواہ یا  اجرت نہیں، پس اگر حکومت یا کمپنی  یہ رقم میت کے کسی ایک رشتہ دار کی ملکیت کردے تو وہی اس کا تنہا مالک ہو گا  اور اگر سب وارثوں کے واسطے دے تو سب وارث آپس میں تقسیم کرلیں گے۔۔۔‘‘ الخ(ص:۱۵۳، ۱۵۴ ،ط: ادارۃ المعارف)

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

 30/12/1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب