73410 | جائز و ناجائزامور کا بیان | جائز و ناجائز کے متفرق مسائل |
سوال
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! گزارش ہےکہ میری بیٹی کانکاح میرےسگےبھانجےسےہوا،حق مہراس کےوالدکی طرف سےپانچ تولہ سونااداء لکھاگیاجوکہ غلط تھا،سوناجتنابھی تھاوہ میں نےبیٹی کودیاتھا،شادی کےفورابعدہی بھانجےنےمارپیٹ اورتشددشروع کردیا،پوچھنےپرکہتاہےکہ میری ماں مجھےایساکرنےکاکہتی ہیں،نان نفقہ بھی نہیں دیا،الٹاجوپیسےمیں نےبیٹی کودیتاوہ بھی چھین لیتے،ان حالات سےتنگ آکربیٹی میرےگھرآگئی،اوراسی دوران اللہ نےبیٹی عطاکی،جس کےبارےمیں بھی بہن اوربھانجےنےرابطہ نہیں کیا،اوربعدازاں طلاق دیدی،بیٹی اونواسی چارسال سےمیرےپاس ہیں۔
اب میں ان سےکس طرح تعلق رکھوں؟ میری بہن اوربھانجےنےنہ صرف یہ کہ نارواسلوک کیااورطلاق دی،بلکہ میری والدہ سےبھی بدتمیزی اورزبان درازی کی،میری والدہ اورمیں نےاپنامعاملہ اللہ کےسپردکردیا،مگربیٹی اورمیری بیوی کسی بھی طرح معاف کرنےکوتیارنہیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
موجودہ صورت میں چونکہ سابقہ لڑائی جھگڑوں کےبعدطلاق کےذریعہ علیحدگی ہوچکی ہے،توبہتریہ ہےکہ بیٹی کی کہیں اورشادی کرلی جائے،البتہ بہن اوربھانجےسےرشتہ داری اورصلہ رحمی کاتعلق بہرحال رکھاجائے۔
رہی بات بیٹی اورگھروالوں کی توشروع میں معاملات تازہ ہونےکی وجہ سےغصہ کاآنا،بدلہ اورانتقام کی کوشش کرنایہ ایک فطری امرہے،فتوی میں صلہ رحمی سےمتعلق فضائل اورقطع رحمی سےمتعلق ذکرکردہ وعیدوں کی روشنی میں بیٹی اورگھروالوں کی آہستہ آہستہ ذہن سازی کی جائے،اورساتھ ساتھ بہن اور بھانجےکوبھی سمجھانےکی کوشش کی جائے،جب کچھ وقت گزرجائےگااورمعاملات پرانےہوجائیں گےتوامیدہےان شاءاللہ خودبہتری آجائےگی۔
قرآن وحدیث صلہ رحمی یعنی رشتہ داروں کےحقوق کی ادائیگی اوران کےساتھ اچھامعاملہ اورحسن سلوک کی ازحدتاکیداوراس کےبےحدفضائل اوراس پربڑےاجروثواب کاوعدہ کیاگیاہے:
۱۔حدیث میں ہےکہ جس کویہ بات پسندہوکہ اس کےرزق میں کشادگی پیداہواوراس کی عمردرازہوتواسےچاہیےکہ صلہ رحمی کرے۔۲۔ایک اورحدیث میں ہےکہ اےلوگو!ایک دوسرےکوکثرت کےساتھ سلام کیاکرو،اللہ کی رضاجوئی کےلیےلوگوں کوکھاناکھلایاکرو،صلہ رحمی کیاکرو،الخ توتم حفاظت اورسلامتی کےساتھ بغیرکسی رکاوٹ کےجنت میں پہنچ جاؤگے۔۳۔ایک اورحدیث میں ہےکہ کسی محتاج کی مددکرناصرف صدقہ ہی ہے،اواپنےکسی عزیزاورقرابت دارکی مددکرناصدقہ بھی ہےاورصلہ رحمی بھی ہے،یعنی اس میں دہراثواب ملتاہےصدقہ کابھی اورصلہ رحمی کا۔جس طرح صلہ رحمی پراجروثواب کاوعدہ کیاگیاہے،اس طرح قطع رحمی یعنی اہل قرابت کےحقوق اداء نہ کرنےاوران کےساتھ برامعاملہ اوربدسلوکی کرنےپربہت سخت وعیدیں بیان کی کی گئی ہیں:
۱۔حدیث میں ہےجوآدمی قرابت داری کےحقوق کی رعایت نہیں کرتاوہ جنت میں نہیں جائےگا۔۲۔اسی طرح ایک اورحدیث میں ہےکہ صلہ رحمی کرنےوالابدلہ لینےوالانہیں،بلکہ صلہ رحمی کرنےوالاوہ ہےکہ جب اس سےقطع رحمی کابرتاؤکیاجائےتووہ پھربھی صلہ رحمی کابرتاؤکرے۔۳۔اورمعنی میں یہ حدیث بھی موجودہے:
رحم عرش الہی سےمعلق دعاء کرتارہتاہے،کہ جومجھےجوڑےرکھےاللہ اسےجوڑےرہے،اورجومجھےکاٹےاللہ اسےکاٹے
اسی طرح قرآن وحدیث میں عفوودرگرزر،برائی کابدلہ احسان سےدینا،اچھائی کامعاملہ کرنےسےمتعلق بھی بہت فضائل واردہوئےہیں۔اللہ تعالی کاارشادہے:
.قال اللہ تعالی فی سورۃ الشوری: الآیۃ :40
{ وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ (40)
۔ترجمہ:اورکسی برائی کابدلہ اس جیسی برائی ہے،پھربھی جومعاف کردےاوراصلاح سےکام لےتواس کاثواب اللہ نےذمہ لیاہے۔
اگرکسی کےساتھ کوئی زیادتی کی جائےتومظلوم کویہ حق حاصل ہےکہ وہ اتنی تکلیف ظالم کوپہنچادے،جتنی اس نےپہنچائی تھی،لیکن اس بات کی بڑی فضیلت بیان فرمائی کہ انسان بدلہ لینےکےبجائے،صبرکرکےمعاف کردے(آسان ترجمہ قرآن،ازمفتی تقی عثمانی1479/3 )
حوالہ جات
"صحيح البخاري" 8 / 5):
5986 - حدثنا يحيى بن بكير حدثنا الليث عن عقيل عن ابن شهاب قال أخبرني أنس بن مالك أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال من أحب أن يبسط له في رزقه وينسأ له في أثره فليصل رحمه۔
"سنن الترمذي" 4 / 65:
عن عبد الله بن سلام ۔۔۔۔وكان أول شئ تكلم به أن قال : يا أيها الناس أفشو السلام وأطعموا الطعام وصلوا والناس نيام تدخلوا الجنة بسلام " هذا حديث صحيح
"الجامع الصحيح سنن الترمذي"3 / 17:
باب ما جاء في الصدقة على ذي القرابة:عن حفصة بنت سيرين ۔۔۔۔۔۔۔۔وقال الصدقة على المسكين صدقة وهي على ذي الرحم ثنتان صدقة وصلة قال وفي الباب عن زينب امرأة عبد الله بن مسعود وجابر وأبي هريرة
"صحيح البخاري" 5 / 2231:
5638 عن ابن شهاب أن محمد بن جبير بن مطعم قال إن جبير بن مطعم أخبره : أنه سمع النبي صلى الله عليه و سلم يقول ( لا يدخل الجنة قاطع )۔ [ ش أخرجه مسلم في البر والصلة والآداب باب صلة الرحم وتحريم قطيعتها رقم 2556 ۔۔( لا يدخل الجنة قاطع ) أي قاطع رحم والمراد به هنا من استحل القطيعة أو أي قاطع والمراد لا يدخلها قبل أن يحاسب ويعاقب على قطيعته وقطع الرحم هو ترك الصلة والإحسان والبر بالأقارب ]
"صحيح البخاري" 8 / 6:
5991 -عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ليس الواصل بالمكافئ ولكن الواصل الذي إذا قطعت رحمه وصلها۔
"صحيح مسلم للنيسابوري" 8 / 7:6683 عن عائشة قالت قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم- « الرحم معلقة بالعرش تقول من وصلنى وصله الله ومن قطعنى قطعه الله »
.قال اللہ تعالی فی سورۃ الشوری: الآیۃ :40
{ وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ (40)
محمدبن عبدالرحیم
دارالافتاءجامعۃالرشیدکراچی
09/ذیقعدہ 1442 ھج
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمّد بن حضرت استاذ صاحب | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |