021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیوی کا طلاق کے اقرار کے بعد مکرجانا
73693طلاق کے احکامتین طلاق اور اس کے احکام

سوال

گاؤں علی زئی کے ذاکر ولد نذیر مرحوم نامی شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں،بیوی والد کے گھر چلی گئی،عورت نے کافی مقدار میں لوگوں کے سامنے قسم کھاکر طلاق کا اقرار کیا،لیکن شوہر طلاق دینے سے انکار کررہا ہے،قریب میں بریلوی مکتب فکر کے عالم کے سامنے مسئلہ پیش کیا گیا تو لڑکے کے طلاق سے انکار کی وجہ سے فیصلہ شوہر کے حق میں دیا گیا کہ طلاق نہیں ہوئی۔

لیکن بہت سے علماء کا کہنا ہے کہ جب عورت نے طلاق کے الفاظ اپنے کانوں سے سنے ہیں تو اب عورت کے لیے مرد کے گھر رہنا اور اسے اپنے اوپر قدرت دینا حرام ہے،دوسری طرف ایک عالم نے فتوی دیا کہ طلاق نہیں ہوئی اور مزید لڑکی والوں کو دھمکی بھی دی،علیحدگی میں لڑکی کو اس بات پر راضی کیا کہ طلاق نہیں ہوئی اور اب لڑکی بھی طلاق کا انکار کررہی ہے کہ شوہر نے مجھے طلاق نہیں دی اور شوہر کے گھر واپس آگئی ہے،اب شریعت کی رو سے اس عورت کا شوہر کے ساتھ رہنا کیسا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

چونکہ طلاق کے معاملے میں عورت قاضی کی طرح ہے،اس لیے جب وہ خود اپنے کانوں سے شوہر کو طلاق دیتے سنے یا کوئی ایسا نیک آدمی اسے طلاق کی خبر دے جس کی بات پر اسے اعتماد ہو تو اس کے بعد عورت کے لیے شوہر کے ساتھ رہنا جائز نہیں رہتا،اگرچہ شوہر طلاق دینے سے انکاری ہو اور عورت کے پاس کوئی گواہ نہ ہو۔

اس لیے مذکورہ صورت  میں جب بیوی نے خود اپنے کانوں سے شوہر کو اسے تین طلاقیں دیتے سنا اور اس کے بعد کئی لوگوں کے سامنے اس کا اقرار بھی کرچکی تو اب اس کے اپنی بات سے مکرجانے کا شرعا کوئی اعتبار نہیں ہے اور اس کے لیے سابقہ شوہر کے ساتھ رہنا ناجائز اور حرام ہے۔

لہذامذکورہ صورت میں اولا شوہر کو خوفِ خدا دلا کر آخرت کے عذاب سے ڈرایا جائے اور اسے اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی جائے کہ وہ غلط بیانی کرکے ساری عمر حرام کاری میں مبتلا ہونے کے بجائے طلاق کا اقرار کرلے یا پھر کم از کم عورت کو علیحدہ کردے،اگر شوہر اس پر آمادہ نہ ہو تو مہر معاف کرکے یا کچھ مال وغیرہ دے کر اس سے عورت کو آزاد کروایا جائے،اگر وہ کسی بھی طریقے سے اس کی جان چھوڑنے پر آمادہ نہ ہو تو عورت اس کا گھر چھوڑ کر میکے چلی جائے اور ہر ممکن طریقے سے اسے اپنے قریب آنے سے باز رکھے۔

چونکہ مذکورہ صورت میں شوہر کے جانب سے طلاقیں دینے پر عورت کے پاس شرعی شہادت(دو مردیا ایک مرد اور دو عورتیں) موجود نہ ہونے کی وجہ سے دیانت کے لحاظ سے طلاقیں واقع ہوئیں ہیں،قضاءً واقع نہیں ہوئیں،اس لیے  اگریہ عورت  اپنا مستقل نکاح دوسری جگہ کرنا چاہے تو ایسی صورت میں قانونی طور پر تحفظ کے لیے عدالت سے رجوع کرکے خلع کی ڈگری ضرور لے لے،تاکہ بعد میں اسے قانونی لحاظ سے سابقہ شوہر کی جانب سے کسی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

حوالہ جات
"الفتاوى الهندية" (1/ 354):
" والمرأة كالقاضي لا يحل لها أن تمكنه إذا سمعت منه ذلك أو شهد به شاهد عدل عندها".
"الدر المختار "(3/ 420):
"(سمعت من زوجها أنه طلقها ولا تقدر على منعه من نفسها) إلا بقتله (لها قتله) بدواء خوف القصاص، ولا تقتل نفسها. وقال الأوزجندي: ترفع الأمر للقاضي، فإن حلف ولا بينة فالإثم عليه، وإن قتلته فلا شيء عليها. والبائن كالثلاث، وفيها شهدا أنه طلقها ثلاثا لها التزوج بآخر للتحليل لو غائبا انتهى. قلت: يعني ديانة. والصحيح عدم الجواز قنية، وفيها: لو لم يقدر هو أن يتخلص عنها ولو غاب سحرته وردته إليها لا يحل له قتلها، ويبعد عنها جهده (وقيل: لا) تقتله، قائله الإسبيجابي (وبه يفتى) كما في التتارخانية وشرح الوهبانية عن الملتقط أي، والإثم عليه كما مر".
قال العلامة ابن عابدین رحمہ اللہ :" (قوله: لو غائبا) تمام عبارة البزازية وإن كان حاضرا لا لأن الزوج إن أنكر احتيج بالفرقة، ولا يجوز القضاء بها إلا بحضرة الزوج. اهـ. (قوله: والصحيح عدم الجواز) قال في القنية: وقال يعني البديع، والحاصل أنه على جواب شمس الأوزجندي ونجم الدين النسفي والسيد أبي شجاع وأبي حامد والسرخسي يحل لها أن تتزوج بزوج آخر فيما بينها وبين الله تعالى، وعلى جواب الباقين لا يحل، وفي الفتاوى السراجية: إذا أخبرها ثقة أن الزوج طلقها وهو غائب وسعها أن تعتد وتتزوج ولم يقيده بالديانة اهـ كذا في شرح الوهبانية.
قلت: هذا تأييد لقول الأئمة المذكورين: فإنه إذا حل لها التزوج بإخبار ثقة فيحل لها التحليل هنا بالأولى إذا سمعت الطلاق، أو شهد به عدلان عندها، بل صرحوا بأن لها التزوج إذا أتاها كتاب منه بطلاقها ولو على يد غير ثقة إن غلب على ظنها أنه حق؛ وظاهر الإطلاق جوازه في القضاء حتى لو علم بها القاضي يتركها، فتصحيح عدم الجواز هنا مشكل، إلا أن يحمل على القضاء وإن كان خلاف الظاهر فتأمل، نعم لو طلقها وهو مقيم معها يعاشرها معاشرة الأزواج ليس لها التزوج لعدم انقضاء عدتها منه كما سيأتي بيانه في العدة.
وأطلق فشمل ما إذا كان الزوج الأول معترفا بالطلاق الثلاث أو منكرا بعد أن كان الواقع الطلاق الثلاث، ولذا قالوا ولو طلقها ثلاثا، وأنكر لها أن تتزوج بآخر، وتحلل نفسها سرا منه إذا غاب في سفر فإذا رجع التمست منه تجديد النكاح لشك خالج قلبها لا لإنكار الزوج النكاح.
وقد ذكر في القنية خلافا فرقم للأصل بأنها إن قدرت على الهروب منه لم يسعها أن تعتد، وتتزوج بآخر لأنها في حكم زوجية الأول قبل القضاء بالفرقة ثم رمز شمس الأئمة الأوزجندي، وقال قالوا هذا في القضاء، ولها ذلك ديانة، وكذلك إن سمعته طلقها ثلاثا ثم جحد، وحلف أنه لم يفعل، وردها القاضي عليه لم يسعها المقام معه، ولم يسعها أن تتزوج بغيره أيضا قال يعني البديع.
والحاصل أنه جواب شمس الإسلام الأوزجندي ونجم الدين النسفي والسيد أبي شجاع وأبي حامد والسرخسي يحل لها أن تتزوج بزوج آخر فيما بينها وبين الله تعالى، وعلى جواب الباقين لا يحل انتهى، وفي الفتاوى السراجية إذا أخبرها ثقة أن الزوج طلقها، وهو غائب وسعها أن تعتد وتتزوج، ولم يقيده بالديانة، والله أعلم.
قال المصنف - رحمه الله - وقد نقل في القنية قبل ذلك عن شرح السرخسي ما صورته طلق امرأته ثلاثا، وغاب عنها فلها أن تتزوج بزوج آخر بعد العدة ديانة ونقل آخر أنه لا يجوز في المذهب الصحيح اهـ.
قلت إنما رقم لشمس الأئمة الأوزجندي، وهو الموافق لما تقدم عنه، والقائل بأنه المذهب الصحيح العلاء الترجماني ثم رقم بعده لعمر النسفي، وقال حلف بثلاثة فظن أنه لم يحنث، وعلمت الحنث، وظنت أنها لو أخبرته ينكر اليمين فإذا غاب عنها بسبب من الأسباب فلها التحلل ديانة لا قضاء قال عمر النسفي سألت عنها السيد أبا شجاع فكتب أنه يجوز ثم سألته بعد مدة فقال إنه لا يجوز، والظاهر أنه إنما أجاب في امرأة لا يوثق بها اهـ.
كذا في شرح المنظومة، وفي البزازية شهد أن زوجها طلقها ثلاثا إن كان غائبا ساغ لها أن تتزوج بآخر، وإن كان حاضرا لا لأن الزوج إن أنكر احتيج إلى القضاء بالفرقة، ولا يجوز القضاء بها إلا بحضرة الزوج. اهـ.

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

24/ذی الحجہ1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب