74280 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ
کسی بندے نے اپنی زمین دیکرکوئی دوسری زمین خریدلی،خریدنے کے بعد وہ زمین تقریباً50سال تک اس کی ملکیت میں رہی،بیچنے والے اورخریدنے والے دونوں کی اولادیں بھی بڑی ہوگئیں یہاں تک کہ انہوں نے شادیاں بھی کرلی ،مگرکسی کی طرف سے اس زمین پرکوئی دعوی سامنےنہیں آیا،اس کے بعد جب بیچنے اورخریدنے والے دونوں مرگئے تو پچاس سال گزرنے کے بعد ابھی جس نے زمین بیچی تھی اس کی اولاد خریدنے والے کی اولاد پر یہ دعوی کررہی ہیں کہ ہمارے والد نے یہ زمین نہیں بیچی تھی تو کیااس طرح دعوی کرنادرست ہے؟
واضح رہےکہ خریدارکے پاس تین گواہوں میں سے ایک گواہ اب بھی زندہ ہے اورکتونی(کاغذات) بھی اس زمین کے موجود ہیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورتِ مسئولہ میں فروخت کنندہ کی اولادکاخریدارکی اولاد پر50سال کے بعدیہ دعوی کرناکہ ہمارے والدنے یہ زمین بیچی نہیں تھی باطل ہے،کیونکہ جب پچاس سال سےیہ زمین مدعی علیہم کے پاس تھی اوراس دوران مدعیان میں سے کسی نےبھی بلاکسی شرعی مانع کے دعوی نہیں کیا،تویہ دلیل ہے اس بات کی کہ یہ زمین انہیں لوگوں کی ہے جن کے قبضہ میں اب تک رہی ہے،بالخصوص جبکہ ان قابضین کے پاس ایک گواہ بھی ہے اورکاغذات بھی ان کے نام ہیں،لہذا ان دعوی کرنے والوں پرلازم ہے کہ اپنے غلط دعوی سے باز آجائیں ،خدا سے ڈریں اوراپنے کئے پر توبہ اوراستغفار کریں اورمدعلی علیہم سے معافی مانگیں۔
حوالہ جات
الدر المختار للحصفكي - (ج 7 / ص 332)
(باع عقارا) أو حيوانا أو ثوبا (وابنه أو امرأته) أو غيرهما من أقاربه (حاضر يعلم به ثم ادعى الابن) مثلا(أنه ملكه لا تسمع دعواه) كذا أطلقه في الكنز والملتقى، وجعل سكوته كالافصاح قطعا للتزوير والحيل.
وفی الحامدیۃ عن الولوالجیۃ: رجل تصرف زمانا فی أرض و رجل آخر یریٰ الأرض والتصرف ولم یدع ومات علی ذٰلک لم تسمع بعد ذٰلک دعویٰ ولدہ فتترک علی ید المتصرف الخ، ثم اعلم أنہ نقل العلامۃ ابن الغرس فی الفواکہ البدریۃ عن المبسوط: إذا ترک الدعویٰ ثلاثا و ثلاثین سنۃ ولم یکن مانع من الدعویٰ ثم ادعیٰ لاتسمع دعواہ لأن ترک الدعویٰ مع التمکن یدل علی عدم الحق ظاہرا ومثلہ فی البحر، وفی جامع الفتاویٰ: وقال المتأخرون من أہل الفتاویٰ: لا تسمع الدعویٰ بعد ست و ثلاثین سنۃ۔ (شامی، کتاب الخنثی، کراچی ۶/۷۴۲، زکریا ۱۰/۴۶۸)
عن علی بن زید عن أبي حرۃ الرقاشيؓ عن عمہ: أن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم قال: ألا ! لایحل مال إمرئ مسلم إلا بطیب نفس منہ۔ (شعب الإیمان للبیہقي، باب في قبض الید عن الأموال المحرمۃ، دار الکتب العلمیۃ بیروت ۴/۳۸۷، رقم:۵۴۹۲)
عن ابن أبي ملیکۃ قال: کنت قاضیا لابن الزبیر علی الطائف، فذکر قصۃ المرأتین، قال: فکتبت إلی ابن عباسؓ، فکتب ابن عباس رضی اﷲ عنہما إن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم قال: لو یعطی الناس بدعواھم لادعی رجال أموال قوم ودماء ہم، ولکن البینۃ علی المدعي، والیمین علی من أنکر۔ (السنن الکبری للبیقي، کتاب الدعوی والبینات، باب البینۃ علی المدعی والیمین علی المدعی علیہ، مکتبہ دارالفکر بیروت ۱۵/ ۳۹۳، رقم: ۲۱۸۰۵)
سیدحکیم شاہ عفی عنہ
دارالافتاء جامعۃ الرشید
26/2/1443ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سید حکیم شاہ | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |